ہر شخص اس قدر تیزی سے کام کر رہا تھا جیسے اس پر کسی جن کا سایہ ہو
مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:18
کٹے ہوئے سؤر کو مشینوں کے ذریعے بڑے ٹب سے نکا لا جاتا اور دوسری منزل پر لے جایا جاتا۔ اس دوران وہ ایک مشین میں سے گزارا جاتا جہاں اس کے سارے بال کھرچ کر اتار لیے جاتے اور اسے ایک اور ٹرالی پر لاد کر آگے بھیج دیا جاتا۔ یہاں وہ اونچے پلیٹ فارم پر آمنے سامنے بیٹھے آدمیوں کی 2قطاروں کے درمیان سے گزرتا۔ ہر آدمی کے ذمے ایک کام تھا جو اسے سؤر کے جسم کے ساتھ کرنا تھا۔ ایک ٹانگ کو باہر سے چھیلتا، دوسرا اندر سے۔ایک تیزی سے گردن کاٹتا، دوسرا سر کاٹ کر الگ کرتا جو نیچے گرتا اور فرش میں بنے سوراخ میں غائب ہوجاتا۔ اگلا آدمی پیٹ چیرتا، دوسرا اس کے جسم کو کھول دیتا، تیسرا ایک آری کے ساتھ سینے کی ہڈی کاٹ دیتا، چوتھا اس کی آنتیں ڈھیلی کرتا، پانچواں ان آنتوں کو کھینچ کر باہر پھینک دیتا۔ وہ بھی فرش میں ایک سوراخ میں غائب ہوجاتیں۔ گوشت کواندر باہر سے چھیلنے، کاٹنے، دھونے غرض ہر کام کے لیے الگ آدمی تھا۔ کمرے میں آ گے معلق سو¿روں کی کوئی 100 گز لمبی قطار تھی۔ ہر گز کے فاصلے پر ایک آدمی متعین تھا جو اس قدر تیزی سے کام کر رہا تھا جیسے اس پر کسی جن کا سایہ ہو۔ اس کے آخر پر پہنچتے پہنچتے سؤر کے جسم کا ایک ایک انچ اچھی طرح دیکھ بھال لیا جاتا اور پھر اسے ایک یخ بستہ کمرے میں لے جایا جاتا جہاں اسے 24 گھنٹے رکھا جاتا لیکن یہاں داخلے سے پہلے دروازے پر ایک سرکاری انسپکٹر اس کی گردن کا معائنہ کرکے تپ ِ دق کے غدود چیک کرتا۔ یہ انسپکٹر بڑے آرام سے کام کرتا تھا۔ اگر آپ اس سے کوئی سوال کرتے تو بڑے تحمل سے جواب دیتا اور آپ کو بتاتا کہ تپ ِ دق والے سؤر کے گوشت میں ٹومین ( ایک خطرناک اور بدبو دار مادہ۔ مترجم) پایا جاتا ہے۔ جس دوران وہ آپ کو اس خطرے سے آگاہ کرنے میں مصروف ہوتا درجنوں سؤر اس کے معائنے کے بغیر ہی گزرتے رہتے۔وہ پیتل کے بٹنوں والی نیلی وردی میں ملبوس تھا جس سے اس کے اختیار کا اندازہ ہوتا تھا۔ ڈرہم کی ساری اشیاءپر سرکاری اجازت والی مہر لگانا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔
یورگس بھی باقیوں کے ساتھ حیرانی سے مونھ کھولے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس نے لیتھواینیا کے جنگلوں میں خود بھی کئی بار سؤر ذبح کیے تھے لیکن اس کام کے لیے سیکڑوں آدمیوں کو دیکھنے کا اس کا پہلا موقع تھا۔پھر یعقوبس نے انہیں خفیہ کمرہ دکھانے کا اعلان کیا جہاں خراب گوشت کو ٹھیک بنایا جاتا تھا۔
سب لوگ نچلی منزل پر آئے جہاں دیگر بے کار مواد کو قابل ِ استعمال بنا یا جاتا تھا۔ آنتوں کو اچھی طرح صاف کر کے ساسج بنانے کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ یہاں کام کرنے والے مرد، عورتیں ایسی انتہائی غلیظ بد بو میں کام کرتے تھے کہ دیکھنے والے کو ابکائیاں آنے لگتیں اور وہ سانس روک کر اگلے کمرے کی طرف بھاگ جاتا جہاں چھیچھڑوں وغیرہ کو ابال کر چربی نکالی جاتی جس سے صابن اور لارڈ ( پکائی کا گھی۔ مترجم) بنائے جاتے تھے۔ اس سے نیچے غلاظت کو ٹھکانے لگانے کا کام کیا جاتا تھا۔ یہ جگہ بھی ایسی تھی کہ دیکھنے والے زیادہ دیر نہیں ٹھہر پاتے تھے۔ دوسری جگہوں پر بھی آدمی یخ کمروں سے آنے والے جانوروں کے جسم کو کاٹنے میں مصروف تھے۔ان میں سب سے پہلے تو پھاڑنے والے تھے جو پلانٹ کے سب سے ماہر لوگ تھے۔ ان کی اجرت سب سے زیادہ تھی یعنی 50 سنٹ فی گھنٹہ۔ سارا دن ان کا کام صرف اتنا ہوتا کہ سؤر کے جسم کو درمیان سے چیر دیں۔ پھر بُغدے والے آدمی آتے۔ یہ بڑے تنومند آہنی جسم کے مالک ہوتے جن کی مدد کے لیے2 آدمی مزید بھی موجود ہوتے جو آدھے جسم کو اس کے سامنے میز پر رکھ کر قابو کرتے اور وہ بُغدے سے اس کے ٹکڑے کرتا۔ اس کے بغدے کا پھل کوئی 2فٹ لمبا تھا اور وہ ایک ہی ہاتھ میں ٹکڑا کاٹ دیتا تھا۔ اس کے ہاتھ کی صفائی اور مہارت قابل ِ داد تھی۔ فرش میں بنے سوراخوں میں سے اس کے کاٹی ہوئیں دستیاں، پٹھ اور دوسرے حصے الگ الگ کمروں میں پہنچ جاتے۔ نیچے جا کر ان کمروں کو دیکھا جا سکتا تھا جہاں گوشت کو محفوظ کرنے کے لیے بڑے ٹبوں میں ڈالا جاتا تھا، اور دھویں والے کمرے جن پر لوہے کے ہوا بند دروازے تھے۔ دوسرے کمروں میں نمک لگے گوشت کو تیار کیا جاتا تھا۔ کچھ کمروں میں گوشت کو ڈبوں اور لکڑی کے ڈرموں میں بند کیا جارہا تھا اور بیکن اور ہیم کو چکنے کاغذوں میں لپیٹنے، بند کرنے، لیبل لگانے اور سلائی کا عمل جاری تھا۔ ان کمروں سے لوگ بھرے ہوئے ٹرک لے کر نکلتے اور باہر پلیٹ فارم تک لے جاتے جہاں مال گاڑیاں سامان کی منتظر ہوتیں۔ وہاں پہنچ کر آدمی کو اچانک احساس ہوتا کہ بلآخر وہ اس بہت بڑی عمارت کی زمینی منزل پر آگیا ہے۔
پھر یہ لوگ سڑک کے پار اس طرف گئے جہاں گائےں ذبح کی جاتی تھیں۔ اس جگہ ہر گھنٹے میں چار پانچ سو گائےں بڑے گوشت میں بدلتی تھیں۔ پچھلی جگہ کے بر عکس یہاں سارا کام ایک ہی منزل پر ہوتا تھا۔کٹے ہوئے جانوروں کی ایک قطار کے بجائے یہاں پندرہ بیس قطاریں تھیں اور مزدوروں کو چل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا تھا۔اس وجہ سے یہاں بہت زیادہ گہما گہمی تھی۔سارا منظر کسی سرکس کے پنڈال جیسا تھا جس کے گرد ناظرین کے لیے گیلری بنی ہوتی ہے۔( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔