اس عمر میں اب یہ چونچلے ؟

اس عمر میں اب یہ چونچلے ؟
 اس عمر میں اب یہ چونچلے ؟

  

’’ویسے یہ پٹاخے کہاں اور کس خوشی میں بجائے جا رہے ہیں ؟ شام سے ہی دماغ میں پٹخ پٹخ ہو رہی ہے مگر مجال ہے محلے والوں کا کچھ خیال ہو " نورینہ بیگم نے غصے سے کھڑکی کے پٹ بند کر دئیے ۔ 
’’ذرا ہولے بیگم ، تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا ، پچھلی گلی میں تو خوب رونق لگی ہوئی ہے ، شادی ہے کسی کی ،  گانے بجانے کا بھی پروگرام ہے ۔ڈھولکی تو شاید کل سے بج رہی ہے " سمیع صاحب نے خوشگوار موڈ میں ٹیبل بجاتے ہوئے کہا ۔
’’تو آپ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہیں ؟ وہاں جا کر ڈھول پیٹ لیجئیے ، یہاں بیٹھے بیٹھے تان سین بننے کی ضرورت نہیں، اونہہ " نورینہ نے اپنی ناک سکیڑی ۔۔
’’تو کیا ہو گیا ، محلے میں خوشی ہے ، اب کیا ہوا اگر ہماری شادی گڈی گڈے کا کھیل ہوئی ؟ بھئی ہم تو وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی خوشی میں بھنگڑے ڈالتے ہیں وہ آپ ہی ہیں جو منہ بسورے بیٹھی ہیں ‘‘ سمیع صاحب نے بھی فورا بدلہ چکایا 
’’ہم منہ بسورے ہی بھلے ، کیونکہ ہمیں کوئی شوق نہیں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کا ، وہ تو آپ ہی ہیں جنہیں قوم کا اتنا درد ہو رہا ہے " ۔ شوہر کیساتھ مسلسل تکرار سے وہ اکتا بھی رہی تھیں لیکن انھیں جیتنے بھی نہیں دینا چاہتی تھیں ۔ 
’’اچھا چھوڑو سب آج کھلا کیا رہی ہو ؟ سمیع صاحب نے بیگم کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا ۔ 
’’کل کی مونگ کی دال پڑی ہے ، شوق فرمائیے، نہیں تو پڑوس میں بن بلائے مہمان بن جائیے ‘‘، بیگم نورینہ کا موڈ بھی آج کچھ پکانے کو نہیں تھا ۔
’’ارے واہ یہ تو خوب یاد دلایا ، یوں کرتا ہوں اپنی شادی کی بقول آپ کے بوسیدہ شیروانی پہن جاتا ہوں، اب خدا جھوٹ نہ بلوائے قسم لے لو ،اگر جو ہم آج بھی دولہا سے کچھ کم لگے ‘‘  سمیع صاحب کی رگ ظرافت پھڑکنے لگی ۔ 
’’آہ ہاہا ، بس اب چھوڑیے جوانی کی باتیں کہاں لے بیٹھے ، وہ اور ہی وقت تھا دولہا دولہن سب تہذیب کے دائرے میں تھے ، اب تو ایک طوفان بدتمیزی ، نہ رات کی فکر نہ دن کی پرواہ ، سر عام اظہار محبت یہ سب مجھے بالکل نہیں بھاتا ، آخر ہم لوگ بھی تو بیاہے گئے تھے، بھگائے نہیں تھے۔۔ ‘‘ بیگم نورینہ نے کرسی پر بے زاری سے کروٹ بدلی ۔ 
’’بیگم اب وہ وقت نہیں ، دنیا بدل گئی ، زمانے بدل گئے ، سب کچھ تبدیل ہو گیا ۔۔اب قدامت پسندی کی جگہ نام نہاد جدیدیت بلکہ یوں کہو، بے حیائی اور بے غیرتی نے لے لی ہے  اور جب بڑے ایسے ہو جائیں تو چھوٹوں سے کیا گلہ ‘‘ سمیع صاحب بھی نئی نسل سے خائف ہی تھے ۔ 
’’بس یہی تو ہے کہ آج کل برائی اتنی عام ہو چکی ہے کہ اچھائی کو تلاشنا ہی مشکل ہو گیا ہے ۔چلو چھوڑو ہمیں کیا ، شکر ہے ایسی نئی نسل ہم نے جنم ہی نہیں دی ، نہ اولاد ہے نہ طعنے سنتے ہیں، صرف بے اولادی کے ہی طعنے سنتے ہیں، اولاد کے ناہنجار ہونے کے نہیں۔ ‘‘ 
’’آہ ہاہ ، ابھی تک تو ہم خود ہی بچے ہیں ، دل معصوم ہونا چاہیے، وہ ہمارا تو ابھی تک جوان ہے، اب آپ کا علم نہیں ۔‘‘  سمیع صاحب کا موڈؑ بدستور خوشگوار تھا 
’’نہیں مجھے چھنا کاکا بننے کا شوق نہیں ، آپ ہی روٹی کو چوچی کہئیے ۔۔اب ذرا میں یہ کتاب پڑھ لوں ، اسی ٹھی ٹھا میں ایک صفحہ تک نہیں پڑھ سکی ۔۔۔نورینہ نے بے زاری سے ناول میں منہ گھسیڑ لیا ۔۔۔۔
’’ہاں بھئی اب تو ہم سے زیادہ یہ ناول ہی اہم ہو گئے ، پڑھتی رہیے آپ ، ہم تو ذرا رونق میلا دیکھ آئیں " سمیع صاحب نے عینک اٹھا کر کانوں پر ٹکائی اور دروازہ کھول کر گلی میں نکل لئے ۔
سمیع صاحب اور نورینہ کی شادی کو 30 سال ہو گئے ،اب تک اولاد کی نعمت سے بھی محروم تھے لیکن دونوں کی زبان پر کبھی بھی ناشکری کے کلمات نہیں آئے تھے بلکہ دونوں میاں بیوی کی زندگی ہمیشہ شگفتہ رہی تھی لیکن اب 30 سال بعد زندگی کی یکسانیت ، بے اولادی اور ویرانی نے جیسے نورینہ کے دل میں پنجے گاڑ لئے تھے ۔۔ماضی کی سب باتیں یاد کرتے کرتے کبھی رو دی تو کبھی ہنسی ، اسکے لبوں پر آ کر ٹھہر سی گئی۔

سمیع صاحب نے خود سے بڑھ کر اس سے محبت کی تھی ،اسکی ذات کو بہت اعتبار بخشا تھا، معمولی پرائمری ٹیچر سے ترقی کرتے کرتے ہیڈ ماسٹر بن گئے تھے، اچھی پنشن تھی کچھ جمع پونجی بچا کر رکھی تھی ۔۔گھر بھی اپنا تھا سو کوئی فکر بھی نہ تھی ۔۔
سمیع صاحب نے نورینہ کے ساتھ بھرپور زندگی گذاری تھی لیکن نورینہ بات بات پر ان کے ساتھ جھگڑنے لگ جاتی تھی ۔۔
ماضی کو یاد کرتے کرتے نورینہ بیگم کے گالوں پر آنسو بہنے لگے ،بہت دیر ہو چکی تھی ، نورینہ لاشعوری طور پر سمیع صاحب کے بارے میں سوچنے لگی ،عین اسی وقت مین گیٹ سے سمیع صاحب گھر میں داخل ہوئے ۔
’’کہاں تھے آپ ؟ اتنی دیر سے کیوں آئے ہیں ؟ کمال ہے آپ کو ذرا برابر بھی احساس ہے میرا ؟" نورینہ کو یوں بولتے دیکھ کر سمیع صاحب کو بے حد مسرت ہوئی،  وہ آج بالکل 30 سال پہلے والی نورینہ لگ رہی تھی جو ان کے تاخیر سے آنے پر بگڑ جاتی تھی اور پھر ان کے بہت منانے پر مان جاتی تھی  ۔
’’کمال ہے آپ ہنس رہے ہیں ، عجیب ہے ، میں پوچھ رہی ہوں ،کہاں رہ گئے تھے بتائیں گے یا نہیں ؟ نورینہ کے صبر  کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا ۔ 
’’حضور آپ کچھ بولنے کا موقع دیجئیے ، مجھے آپ کے مزاج کچھ برہم دکھائی دے رہے تھے تو پہلے تو اپنے جگری دوست شہاب الدین کے پاس چلا گیا، وہیں دیر ہوئی تو راستے میں دکان پڑتی تھی ،وہیں سے محترمہ کے لئے سیخ کباب بنوائے آگے چلا تو یاد آیا کہ جب تمھارا موڈ خراب ہوتا یا تم بیزار ہوتی تو ماش کی دال کے بڑوں کی فرمائش کرتی تھیں وہ بھی لے لئے ،
ہنس اس لئے رہا ہوں کہ تم میں آج تیس سال پہلے والی نورینہ کی جھلک دکھائی دی ، وہی معصومیت ، وہی پیار و تکرار اور مصنوعی غصہ ۔۔اسی سب کا تو میں روز ہی منتظر رہتا ہوں، سمیع صاحب وہیں دیوان پر ٹک گئے ،نورینہ حیرت سے انھیں تکنے لگی   " نورینہ یہ جو میاں بیوی کا رشتہ ہوتا ہے ناں، یہی اصل میں اصل رشتہ ہوتا ہے، باقی سب رشتے بھی اپنی اپنی جگہ اہم ہیں لیکن یہ رشتہ منٹوں ، گھنٹوں اور سالوں پر محیط ہوتا ہے ، اب دیکھو جتنا لمبا سفر ، جتنی لمبی مسافت ، اتنی ہی زیادہ جدوجہد، اتنا ہی زیادہ حوصلہ ، اتنی ہی ہمت اور ساتھ ہی ساتھ اس رشتے کو بھرپور اور تازہ رکھنے کے لئے اظہار محبت چاہیے،چاہے ابتدا میں اس کے لئے کتنی ہی محنت کرنا پڑے ۔۔لیکن جب یہ محبت قائم کرنے کی محنت پھل دینے لگتی ہے ناں ،تو دل سکون پا جاتا ہے ۔مسافر کے منزل کے پہنچنے کی خوشی اسے راستے کی تمام تر تکلیفوں کو بھلا دیتی ہے ۔‘‘
تم میری بات سمجھ رہی ہو ناں، سمیع صاحب نے متحیر نورینہ بیگم کے سامنے ہاتھ ہلایا تو وہ ہولے سے ہاں بولیں ۔۔واقعی انھیں تو حقیقی معنوں میں  آج احساس ہوا تھا کہ میاں بیوی کے رشتے کو تازہ رکھنے کے لئے روز تجدید وفا کی ضرورت ہوتی ہے ، ایک شعوری کوشش ہوتی ہے اور اسکی چند سالوں کی محبت کے بعد یہ شعوری کوشش تو صرف سمیع صاحب ہی کر رہے تھے ۔وہ تو بس زندگی گذار رہی تھی ،جی نہیں رہی تھی، تب ہی تو زندگی کتنی بے کیف سی ہو گئی تھی ۔ 
نورینہ، سمیع صاحب کی باتیں یوں سن رہی تھی گویا دل میں اتار رہی ہو۔ 
اس نے تو کبھی اس نہج پر سوچا ہی نہیں تھا کہ سمیع صاحب کی آنکھوں میں اس بات کی بھی تھکن ہے ، ان کے دل میں روز اظہار محبت سننے کی بھی تو خواہش ہے اور جو بالکل جائز ہے۔ 
چند لمحے بیٹھے بیٹھے سوچتی رہی تو سمیع صاحب نے کہا " کیا ہوا تم بھی تو کچھ کہو ، یا میری ہی سنتی رہو گی ؟ میں آج کچھ زیادہ نہیں بول رہا ؟ ‘‘ 
’’نہیں نہیں ، میں تو یہ سوچ رہی ہوں کہ بہت سی جگہوں پر ہم خود غلط ہوتے ہیں اور الزام دوسروں پر آسانی سے لگا دیتے ہیں، میں بھی زندگی میں غلط تھی ، زندگی کے کتنے سال میں نے ایسے ہی گذار دئیے ، بے کیف ، بے رونق ، لیکن شاید اب ہی کچھ سدھر جائوں ورنہ مزید پچاس سال یونہی گذر جائیں گے ‘‘ نورینہ بیگم سمیع صاحب کی آںکھوں میں دیکھتے ہوئے بولیں جہاں آج بھی اس کے لئے پیار اور سچائی جھلک رہی تھی ۔
’’ارے جناب پچاس تو کیا ہم 100 سال بتائیں گے آپ کے ہمراہ ، آپ کے چہرے پر جھریاں بھی پڑ جائیں گی اور ہم بھی لڑکھڑائیں گے لیکن پھر بھی ہمارا دل آپ کے نام پر ہی دھڑکتا رہے گا اور ایک ایک سانس آپ کے پیار پر صدقے واری جائے گی ۔ ‘‘ 
’’ہائے اللہ ، آپ بھی کمال کرتے ہیں ؟ اس عمر میں اب یہ چونچلے ؟ لوگ کیا کہیں گے ؟ نورینہ نے شرماتے ہوئے کہا تو سمیع صاحب ہنستے ہوئے کچن میں پلیٹیں لینے چل دئیے ۔۔۔ 

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

۔

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -