کبھی اسرائیل کا احتساب ہو گا؟
اسرائیل کے فلسطین پر حملوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایک ہی خاندان کے11افراد سمیت لگ بھگ دو درجن مزید فلسطینی شہید ہو گئے۔ فلسطینی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق ہفتے کو اسرائیل نے غزہ کے مشرق میں واقع شجاعیہ سکول کے قریب رہائش پذیر بوستان فیملی کے گھر پر فضائی حملہ کر کے چار بچوں اور تین خواتین سمیت 11افراد کو شہید کر دیا۔ اسرائیلی فورسز نے اِس کے علاوہ بھی حماس کے زیر انتظام بعض دیگر علاقوں میں حملے کیے جن میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے، غزہ کے شمال مغرب میں دار الارقم سکول کے قریب سے گزرتے ایک گروپ پر حملہ کر کے پانچ لوگوں کو شہید کر دیا۔اِسی طرح خان یونس کے علاقے المواسی میں ایک حملے میں تین افراد شہید ہو گئے۔ غزہ کی وزارت ِصحت کے مطابق گزشتہ 48گھنٹوں کے دوران مجموعی طور پر 64فلسطینی شہید کر دیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ سات اکتوبر کو اِس جنگ کو ایک سال مکمل ہو جائے گا، گزشتہ تقریباً ساڑھے گیارہ ماہ سے جاری اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں 41ہزار سے زائد فلسطینی شہید جبکہ 95 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔اسرائیل کی فوج تو جو ظلم ڈھا رہی ہے،انتہاء پسند اسرائیلی شہری بھی اِس کا ساتھ دے رہے ہیں،ایک بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کے ایک فارم پر جانوروں کے پینے والے پانی میں زہر ملا دیا گیا جس سے50 سے زائد بھیڑ بکریاں ہلاک ہو گئیں۔ اِس سے ان کے تعصب کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، یونیسیف اور اِنروا نے انسدادِ پولیو مہم کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جنگ بندی کے ایک اور مرحلے کا مطالبہ کیا ہے۔اِن اداروں کا کہنا ہے کہ انسدادِ پولیو مہم کے دوسرے مرحلے کے لیے غزہ کی جنگ میں مزید توقف انتہائی ضروری ہے کیونکہ گزشتہ 12 روز سے جاری رہنے انسدادِ پولیو مہم کے دوران اب تک صرف پانچ لاکھ 60 ہزار بچوں کو انسدادِ پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جا سکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اِس معاملے میں کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔اب تک تو امریکہ سمیت دیگر بین الاقوامی طاقتوں کو جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے چند روز قبل اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ پرانی شرائط پر ہی امریکی فارمولے کے تحت جنگ بندی کے لیے تیار ہے، وہ مزید کوئی نئی شرط نہیں رکھنا چاہتا۔ البتہ اسرائیل اپنی شرائط میں اضافہ کر چکا ہے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا اِس سلسلے میں دوحہ کے وزیراعظم سمیت دیگر ثالثوں کو اپنی رضامندی کے بارے میں آگاہ کر چکے ہیں،اُنہوں نے کہا ہے کہ اب امریکہ اسرائیل پر اپنی نئی شرائط واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالے۔ واضح رہے کہ امریکہ اِس وقت قطر اور مصر کے ساتھ مل کر حماس پر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کے معاہدے پر زور دے رہا ہے، وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں کہ حماس مذاکرات کی میز پر آئے گا یا نہیں کیونکہ نئے اسرائیلی مطالبات کی وجہ سے حماس کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنا مشکل نظرآتاہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ گزشتہ فارمولے میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں تین مراحل میں جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا تھا، حماس نے فوری جنگ بندی کے لیے رضامندی بھی ظاہر کر دی تھی تاہم مذاکرات کے دوران آخری لمحے میں اسرائیلی وفد نے اپنے وزیراعظم کی جانب سے مصر سے ملحقہ غزہ کے بارڈر فلاڈیلفی کوریڈور کا کنٹرول اپنے پاس رکھنے کی شرط پیش کر دی جسے حماس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کا کہنا تھا کہ آئندہ چند روز میں جنگ بندی مذاکرات کے لیے نئی تفصیلی تجاویز تیار کر لی جائیں گی تاکہ حتمی معاہدے تک پہنچا جا سکے۔دنیا میں پاکستان اور سعودی عرب سمیت چند ہی ممالک ہیں جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکا تھا، سعودی عرب کی طرف سے گزشتہ سال اسرائیل کو تسلیم کیے جانے اور تعلقات معمول پر لانے کے معاملات حتمی مراحل میں تھے کہ سات اکتوبر کا واقعہ ہو گیا اب سعودی عرب یہ واضح کر چکا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک معمول پر نہیں آ سکتے۔ امریکہ فلسطین میں جنگ بندی کے معاملے میں خاصی دلچسپی لے رہا ہے،اس کی خواہش ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہو جائیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ اسرائیل پر اِس جنگ کو بند کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، نیتن یاہو حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں، مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ موجودہ حکومت مستعفی ہو جائے لیکن اسرائیل پر اِس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو جنگ میں توسیع چاہتا ہے، کبھی لبنان پر حملہ کرتا ہے تو کبھی یمن اِس کے نشانے پر ہوتا ہے،ایران ویسے ہی اُسے کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔اسرائیل اور لبنان کی سرحد پر قریباً روزانہ کی بنیاد پر جھڑپیں ہوتی ہیں،اسرائیلی فائرنگ اور حملوں میں کم از کم 610 لبنانی شہید ہو چکے ہیں اور اب تک لگ بھگ سوا لاکھ شہری نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اُس کے خطے میں توسیع پسندانہ عزائم پر بات کی جاتی ہے اور ناقدین کے خیال میں اسرائیل اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے کسی بھی ملک کے کسی بھی علاقے پر قبضے سے گریز نہیں کرے گا۔غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کرنے کے باجود وہ قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں ہے،جنگ بندی کے کسی معاہدے پر آمادہ نہیں ہو رہا، پرانی شرطیں مان لئے جانے کے بعد نئی شرائط رکھ دیتا ہے اِس سے زیادہ اس کی بدنیتی کا کیا ثبوت ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ فلسطین کے بعد اُس کے دِل میں کسی دوسرے ملک پر قبضے کی خواہش جاگ جائے اور وہ اس طرف چل پڑے۔ اب تک فلسطین میں اس کے بڑھتے قدم روکے نہیں جا سکے،اقوام متحدہ قرارداد منظور کرتی ہے لیکن اسرائیل اسے ہوا میں اُڑا دیتا ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اسرائیلی حملوں میں اقوام متحدہ کے عملے اور امدادی رضاکاروں کی ہلاکتوں پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ تو کر رہے ہیں لیکن یہ احتساب کرے گا کون،اِس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اسرائیل اب تک جو کرتا آیا ہے وہ سب ہی ناقابل ِ برداشت اور ناقابل ِ قبول ہے، عالمی عدالت انصاف کا عبوری فیصلہ ماننے سے وہ انکاری ہے، بین الاقوامی انسانی قوانین کی اُس نے دھجیاں بکھیر دیں، کسی سکول، کسی ہسپتال کسی مسجد کو نہیں چھوڑا، اس پر نسل کشی ثابت ہو چکی ہے، وہ جنگی جرائم کا مرتکب ہے لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس کا راستہ روک سکے۔اسرائیل کو فلسطین پر حملہ کئے ایک سال مکمل ہونے والا ہے لیکن عالمی برادری سے اب تک کچھ نہیں بن پڑا، مسلم ممالک بھی اِس معاملے میں ناکام رہے ہیں۔عجیب بات ہے کہ اسرائیلی بربریت جاری ہے، فلسطینی شہید ہو رہے ہیں،بچے،خواتین، بوڑھے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے اور دنیا غور و فکر میں پڑی ہوئی ہے۔اسرائیل کے حمایتی ممالک آگے بڑھیں،احساس کریں اور احساس دلائیں،اسرائیل کے بڑھتے قدم جلد از جل روک لیں۔اسلامی ممالک متحد ہو کر اِس مسئلے کا حل نکالیں۔یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے، کہیں پر کسی جانور کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی ہے تو پوری دنیا میں آواز اٹھتی ہے، اگر ابھی بھی سب نے مل کر اسرائیل کے قدم نہ روکے تو وہ مزید شیر ہو جائے گا۔عالمی برادری اور اداروں پر لازم ہے کہ وہ اُسے ہر حال میں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور جو ظلم اُس نے ڈھایا ہے، جو ناحق خون اُس نے بہایا ہے اس کا حساب لیں۔
٭٭٭٭٭