ننکانہ صاحب سے بابا گورونانک تک۔ تاریخ کا ایک اہم ورق

Sep 16, 2024

اسلم لودھی

ننکانہ صاحب صوبہ پنجاب کا ایک مشہور شہر، ضلع اور سکھ مت کے بانی گورونانک کا جنم استھان ہے۔ یہ شہر لاہور سے 83کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ شہر چاروں اطراف سے فیصل آباد، لاہور، شیخوپورہ اور جھنگ کے اضلاع میں گھرا ہوا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ ساندل بار میں شامل ہے۔ اس علاقے میں ایک بستی ”سابو کی تلونڈی“کے نام سے پندرہویں صد ی عیسویں کے اوائل میں موجود تھی۔ یہ بستی تیرہ مرتبہ کھنڈرات میں تبدیل ہوئی اور اتنی ہی بار تعمیر ہوئی جس کی نشانیاں آج بھی دھولر کی صورت میں موجود ہیں۔ پروفیسر اسد سلیم شیخ اپنی مشہور کتاب ”نگر نگر پنجاب“ میں لکھتے ہیں کہ یہ علاقہ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان میں نہایت زرخیز زمینوں پر مشتمل تھا۔ 1426ء میں بہلول خاں لودھی کے دور حکومت میں اٹھارہ سو مربع میل اراضی پر مشتمل ایک جاگیر رائے بھوئے خاں بھٹی کے نام عطا کی۔ رائے بھوئے خاں اس جاگیر پر اپنی ملکیت اور قبضہ برقرار رکھنے کے سلسلے میں ملتان کے "رانا مل گاؤں "جسے بھٹی خاندان نے ہی آباد کیا تھا، نقل مکانی کرکے اپنے اہل و عیال سمیت اس جاگیر پر آبسے۔بھٹی خاندان کا سب سے پہلا مسلمان  رائے بھوئے خاں بھٹی کاباپ اچت رائے تھاجو مسلمان ہوا تو اس کا نام "اللہ دتہ"رکھا گیا۔ اچت رائے "حضرت بہاؤ الدین زکریا " کے پڑپوتے کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا تھا۔ رائے بھوئے خاں بھٹی جب اس علاقے میں یعنی "سابو کی تلونڈی" میں آیا تو بعد میں اس نے اسے علاقے کو" رائے بھوئے کی تلونڈی" کا نام دیا۔ یہ تلونڈی بڑی زرخیز اور خوشحال تھی۔امرتسر اور دوسرے علاقوں سے لوگ روزگارکی تلاش میں یہاں آکر آباد ہوگئے۔ رائے بلار خاں بھٹی نے اپنے باپ رائے بھوئے خاں کے انتقال کے بعد اس تلونڈی کو بہت اہمیت دی اور اس کی زمینوں کو زیادہ سے زیادہ آباد کرنے کی غرض سے طرح طرح کے ہنر مند لوگ یہاں لاکر بسائے۔رائے بلار نے ایک ہندو کھشتری چند عرف مہتہ کالو کو اپنی جاگیر کی دیکھ بھال اور ریونیو کی وصولی اور حساب کتاب کے لیے بطور منشی ملازم رکھا۔اسی کے ہاں ایک بچہ 15اپریل 1469ء کو پیدا ہوا۔ والدین نے اس کا نام نانک رکھا۔جس کے بچپن کی معصومانہ اور غیر فطری حرکات و سکنات نے رائے بلار کو بہت متاثر کیا۔اسے  ننھے نانک سے دلی وابستگی ہوگئی۔ رائے بلار اپنی زندگی کے آخری برسوں میں نانک کو شدت سے یاد کرتا رہتا تھا۔اس کی زبان پر ایک ہی ورد جاری رہتا۔نانک آنا، نانک آنا۔ رائے بلار کا یہی ورد لوگوں کی زبان پر آیا تو نانک آنا سے ننکانہ بن گیا۔صاحب کا خوبصورت اضافہ سکھ مذہب کی ایک علامت ہے،جیسے گوردو ارہ صاحب، پنجہ صاحب وغیرہ کہا جاتا ہے۔ رائے بلار نے اٹھارہ سو مربع زمین میں سے سات سو مربع زمین اپنی ہی زندگی میں باباگورونانک دیوجی کے نام وقف کردی۔باباگورو نانک کو بچپن ہی سے سیر و سیاحت کا شوق تھا اس لیے وہ چلتے پھرتے صوفیانہ رنگ میں رنگتے چلے گئے۔ بالآخراپنی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگئے۔گرنتھ صاحب سکھوں کی مقدس کتاب ہے جس میں ابتدا ء سے آخر تک گورونانک کی تعلیمات شامل ہیں۔ بعد ازاں سکھ گوروؤں کے زمانے میں اس میں اضافے ہوتے رہے۔گورونانک نے سنسکرت کی تعلیم پنڈت پریم ناتھ اور فارسی کی تعلیم قاضی قطب الدین سے حاصل کی۔ گورونانک کی ابتدائی تربیت میں حضرت سید حسن ؒ  کا بہت کردار ہے اور گورونانک نے بھی ان کی تعلیمات کا بہت اثر لیا۔ گورونانک بچپن ہی سے اللہ واحد کہنے لگے تھے اور دنیا کے بکھیڑوں اور دھندوں سے نفرت کرتے تھے۔آپ کی طبیعت نیکی اور روحانیت کی طرف مائل تھی۔ بابا گورو نانک نے تمام عمر توحید،محبت، مساوات اورنیکی کا درس دیا۔وہ ہندو، مسلمانوں اور دیگرمذاہب کے لوگوں کو رواداری، پیار، صلح و آشتی اور توحید کا درس دیتے تھے اور باہمی محبت و پیار کو فروغ دینے کے لیے کہتے۔ آپ کی شادی گیارہ سال کی عمر میں کردی گئی تھی۔ باپ نانک کو تاجر بنانا چاہتا تھا اور اس غرض سے آپ کو کچھ رقم دیکر چوہڑکانہ (فاروق آباد) کی طرف بھیجا۔ ساتھ ایک ملازم بھی کردیا۔ کئی کوس کی مسافت طے کرکے راستے میں نانک کا آمنا سامنا سادھوؤں کے ایک گروہ سے ہوا۔جب نانک کو علم ہوا کہ وہ سادھو کئی دن سے بھوکے ہیں تو انہوں نے اپنے پیسے ان سادھوؤں کو یہ کہتے ہوئے دے دیئے کہ ان پیسوں سے کھانا کھا لو۔سادھوؤں نے کہا ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے ہم تو پیٹ کی آگ بجھانا چاہتے ہیں۔ نانک نے اپنے ساتھی بالے جٹ کو بیس روپے دے کر کھانے پینے کا سامان منگوایا اور ان سادھوؤں کو دے دیا۔نانک نے اسے نقصان نہیں یعنی سچا سودا قرار دیا۔ آج اس مقام پر نانک کے اس واقعہ کی یاد میں ایک گوردوارہ سچا سودا کے نام سے موجود ہے۔18سال کی عمر میں نانک نے سلطان پورکے دولت خان کے ہاں ملازمت بھی کی۔ اس کے بعد آپ کا روحانی سفر تیز ہوگیا۔آپ نے دنیا کے بہت سے حصوں کی سیرو سیاحت کی۔اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کیا۔ بابا گورونانک مکہ معظمہ اور بغداد شریف بھی گئے۔اس کے علاوہ افغانستان، ایران،سری لنکا اور ہندوستان کے سارے خطوں کی بھی سیاحت کی۔آپ صلح و آشتی اور توحید کے علمبردار تھے۔ مسلمان صوفیا ء کرام کے ساتھ آپ کا گہرا اور خصوصی تعلق اور یارانہ تھا۔پیر جلا ل ؒ، میاں مٹھاؒ ، پیر عبدالرحمن ؒ، پیر سید حسن ؒ اور بابا بڈھن شاہ  ؒکے دوستوں میں آپ بھی شامل تھے۔ شیخ ابراہیم ؒ اور شیخ فرید ثانی  ؒ آپ کے خاص دوستوں میں سے تھے  اور شیخ فرید ثانی  ؒ  کا بہت سا کلام گروگرنتھ میں موجود ہے۔ گروگرنتھ میں دیگر صوفیاء کے علاوہ بابا گورونانک کا کلام بھی جمع ہے۔ آپ سکھ مذہب کے بانی ہیں۔ آپ کی زندگی کا آخری حصہ کرتارپور میں گزرا جو تحصیل شکرگڑھ میں واقع ہے۔یہ قصبہ آپ نے آباد کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ نے وفات پائی تواس وقت مسلمان آپ کو اپنے مذہبی عقید ہ کے مطابق دفن کرنا چاہتے تھے اور ہندو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق جلانا چاہتے تھے۔ دونوں قوموں کے درمیان تکرار جاری تھی کہ آپ کی نعش غائب ہو گئی اور کفن ہی باقی بچا۔ چنانچہ مسلمانوں نے آدھا کفن دفن کردیا اور ہندووں نے آدھا کفن جلادیا۔آپ نے 1538ء میں وفات پائی۔

مزیدخبریں