ملٹری ہسٹری اور جنرل ہسٹری: ایک تجزیہ   (2)

Sep 16, 2024

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

میرے گزشتہ کالم پر اعتراض کرتے ہوئے ایک دانشور قاری نے کہا کہ ”یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ پاکستان، جرمنی کی عطا ہے تو یہ ایک نہائت ناگوار اور پاکستان مخالف جملہ ہے۔ پاکستان تو ہمیں فکرِاقبال اور مساعیء حضرتِ قائداعظم کے طفیل ملا، یہ جرمنی بیچ میں کہاں سے نکل آیا؟ اس قسم کے مہمل جملوں سے پرہیز کیا کریں۔ آپ کے کالموں کو ہم جیسے ’بے علم‘ لوگ بھی پڑھتے ہیں“۔

میں اپنے اس قاری سے معانی کا خواستگار ہوں۔نام اس لئے نہیں لکھ رہا کہ ان کی ’بے علمی‘ کچھ اور عیاں ہوکر سامنے آئے گی۔ میرا مقصود اس جملے سے یہ تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور ہٹلر کی ملٹری ہسٹری ہم میں سے بہت سے لوگ پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔ جنرل ہسٹری اور بات ہے اور ملٹری ہسٹری بالکل ایک دوسری بات ہے۔

دوسری عالمی جنگ میں جرمنی پورے یورپ پر قابض رہا۔ (مئی 1941ء سے مئی 1945ء تک) برطانیہء عظمیٰ ان برسوں میں دنیا کی واحد سپر پاور تھا اور جرمنی اس کے مقابلے میں ایک بہت چھوٹا ملک تھا۔ مزید یہ کہ اسی جرمنی نے 1918ء میں پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ سے شکست کھائی تھی۔ برطانیہ کے ساتھ اتحادیوں میں امریکہ اور یورپ کے کئی اور ممالک بھی شامل تھے۔ ہم برصغیر کے باشندے (ہندو، مسلمان، سکھ) برطانیہ کی ایک کالونی تھے اس لئے برطانیہ، برٹش انڈین آرمی کی ایک کثیر نفری کو یورپ لے گیا اور پہلی بار ہمیں احساس دلایا کہ یورپی اقوام کی عسکری برتری کیا ہوتی ہے۔ اسی پہلی عالمی جنگ میں 1917ء میں پہلی بار کیمبرائی (فرانس) کے مقام پر ٹینکوں کی پہلی لڑائی ہوئی تھی۔ یہ ٹینک بالکل ایک نیا ویپن تھا جسے برطانیہ نے جرمنی کے خلاف استعمال کیا۔

اس پہلی عالمی جنگ میں پہلی بار طیارے بھی استعمال کئے گئے۔پہلا ہوائی جہاز 1904ء میں امریکہ نے ایجاد کیا تھا لیکن اس عالمی جنگ میں یہ ہوائی جہاز، لڑاکا اور بمبار طیاروں میں تبدیل ہو گیا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں پہلی بار دو    اورنئے ہتھیار استعمال ہوئے۔ایک ٹینک اور دوسرا ہوائی جہاز…… اس کے بعد تو ان نئے ہتھیاروں کی ڈویلپمنٹ اس شدت اور تیزی سے آگے بڑھی کہ آج تک دنیا حیران ہے کہ اتنے کم عرصے میں ان ہتھیاروں نے کیا کیا عجیب و غریب گل کھلائے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس موضوع پر اس حقیقت کی جستجو کریں کہ ان ہتھیاروں نے دنیا میں ایک عالمِ نو کس طمطراق سے متعارف کروایا۔

جرمنی یہ جنگ ہار گیا اور اتحادی (برطانیہ، امریکہ اور روس وغیرہ) جیت گئے۔ لیکن اس ہار کی کوکھ سے ایک نیا جرمنی پیدا ہوا۔ اس کا خالق اوڈلف ہٹلر تھا۔

اس نے ہاری ہوئی جرمن قوم کو صرف 20برس (1918ء تا 1938ء) میں نہ صرف یہ کہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا بلکہ ٹینک اور طیارے کا استعمال کرکے ایک نئی طرزِ جنگ (بلز کریگ) ایجاد کی اور دیکھتے ہی دیکھتے فرانس کو روندتا ہوا انگلش چینل تک  جا پہنچا۔ اس کے بعد ہٹلر، روس کی طرف متوجہ ہوا اور اسے شکست تو نہ دے سکا لیکن اس کے دو کروڑ فوجیوں اور سویلین افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔اس کی تفصیل ملٹری ہسٹری کی کتابوں میں دیکھی اور پڑھی جا سکتی ہے۔

30اپریل 1945ء کو ہٹلر نے اپنے بنکر میں خودکشی کرلی۔ ساری اتحادی افواج نے مل کر نازی جرمنی کی افواج کو گھیر لیا اور اس طرح اتحادی فتح یاب ہو گئے۔ لیکن اس 6سالہ دوسری عالمی جنگ نے امریکہ کے علاوہ باقی تمام اتحادی افواج کی کمرتوڑ دی۔ برصغیر پر انگریز (برطانوی) دکھاوے کے لئے مئی 1945ء میں بھی قابض تھے۔ لیکن یہ جنگ تو دو ایٹمی بموں نے اگست 1945ء میں جیتی تھی اور جاپان جو اس جنگ میں جرمنی کا حلیف تھا، ہار گیا تھا۔

1945ء سے لے کر 1947ء تک کے دو سال برطانیہ کے لئے اہم ترین سال تھے۔ وہ اس جنگ سے پہلے برصغیر کا واحد تاجدار تھا اور بظاہر ستمبر 1945ء میں بھی تاجدار تھا لیکن فوجی لحاظ سے وہ اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا اور سمندر پار اپنی کالونیوں پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔

دریں اثناء برصغیر کے باسی بھی چوکنے ہو چکے تھے۔ برطانیہ نے اپنے دورِ حکومت میں ہندوستان بھر میں سڑکوں، ریلوں، سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں،   اسمبلیوں اور فوجی چھاؤنیوں کا ایک جال بچھا دیا تھا۔ لیکن 1945ء کے وسط میں یہی جال، برطانوی حکومت کے گلے کا پھندا بن گیا۔ اقبال، جناح، نہرو، گاندھی اور برصغیر کے ہندو اور مسلمان باشندے انگریزی سکولوں میں تعلیم پا کر بیدار مغز ہو چکے تھے۔  علاوہ ازیں ان سب لیڈروں نے انگلستان جا کر بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی تھی اور ان کے اذہان اپنی غلامی کی زندگی پرپشیمان تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ برطانیہ، بظاہر فاتح لیکن دوسری جنگ میں دراصل شکست خوردہ فریق بن چکا تھا اور اس کی عسکری قوت برصغیر کواپنے کنٹرول میں نہیں رکھ سکتی تھی، اس لئے انہوں نے ”آزادی“ کا نعرہ لگایا۔ اقبال کے اس شعر نے:

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں 

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں 

برصغیر کے باشندوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کر دی۔ لیکن اس تڑپ کو آزادی کی شمشیروں کی سپورٹ حاصل نہ تھی۔

ذرا اس دور کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور بتائیں یا سوچیں کہ برصغیر کی تحریکِ آزادی میں کتنے مسلمان شہید ہوئے تھے اور کتنے ہندوؤں نے آزادی کا بلیدان دیا تھا؟…… ہندوستان مردہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے اگرچہ خون کو گرماتے تھے لیکن خون گرم ہونا ایک بات ہے اور خون کا نذرانہ پیش کرنا دوسری بات ہے۔

بہت سے قارئین میرے اس استدلال پر ناراض ہوں گے لیکن تاریخ کا مطالعہ کریں اور ان شہیدوں کی تعدادبتائیں کہ جو انڈیا اور پاکستان کی تخلیق کا سبب بنے۔

میرے نزدیک 1857ء کی جنگ آزادی 1945-47ء کی تحریکِ آزادی کے مقابلے میں کہیں زیادہ جاندار تھی۔1857ء کی جنگ آزادی میں جتنے مسلمان مارے گئے تھے (یا شہیدہوئے تھے)اس کا عشر عشیر بھی 1947ء کے آس پاس کے برسوں یا مہینوں میں آپ کو دیکھنے کو نہیں ملے گا…… ہاں جب تقسیم ہو چکی اور انڈیا کے مسلمانوں نے پاکستان کا رخ کیا اور پاکستان کے ہندوؤں نے انڈیا جانے کا سفر کیا تو سینکڑوں لوگ (مسلمان اور ہندو) مارے گئے۔ لیکن یہ اموات 14اگست کے بعد ہوئیں، اس سے پہلے نہیں۔ مسلمان نہتے تھے اور سکھوں کی کرپانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے…… انگریزوں کو معلوم تھا کہ برصغیر کے مسلمان اور ہندو سویلین آپس  میں لڑ مریں گے۔ اس لئے وہ چپ چاپ تماشا دیکھتے رہے۔

1757ء کی جنگ پلاسی کے بعد کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے کہ انگریزوں نے 1857ء کے آتے آتے اپنے کتنے فوجی مروائے؟…… یہ سٹڈی بہت چشم کشا ہو گی۔

آج کا ایک مسلمان (یا ہندو) سویلین موت سے لرزتا ہے۔ ہاں جب وہ کسی فوجی تنظیم کا حصہ بن جاتا ہے تو یہ ٹریننگ اس کو موت و حیات سے بے نیاز کر دیتی ہے۔1947-48ء، 1965ء، 1971ء اور 1999ء میں کارگل کی پاک و ہند جنگوں میں کتنے سویلین مارے گئے؟ لیکن فوجی جوانوں اور افسروں کی بات دوسری ہے۔ فوجی ٹریننگ ان کو اپنے وطن اور قوم پر مرمٹنا سکھاتی ہے۔ کل بھی ایسا تھا۔ آج بھی یہی حال ہے اور آئندہ بھی ایسا رہے گا۔

اس لئے میں نے گزشتہ کالم میں استدلال کیا تھا کہ پاکستان کا حصول، ہماری طرف سے انگریزوں کے خلاف کسی جنگ کانتیجہ نہ تھا بلکہ انگریز تو خود، کیا برصغیر بلکہ اپنے سارے مقبوضات سے باہر نکل کر واپس اپنے جزائر میں چلا گیا تھا۔ اس واپسی کے بعد اس نے کیا کیا اور کیا سٹرٹیجی اپنائی اور دنیا میں اپنے آپ کو کس طرح منوایا…… یہ نکات ایک اور کالم کے طلبگار ہوں گے۔(ختم شد)

مزیدخبریں