جنرل(ر) پرویز مشرف الیکشن کی دوڑ سے باہر؟

جنرل(ر) پرویز مشرف الیکشن کی دوڑ سے باہر؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سابق صدرجنرل( ر) پرویز مشرف الیکشن کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں۔چترال وہ واحد حلقہ تھا،جہاں ان کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کئے گئے تھے، خیال تھا کہ وہ یہاں سے الیکشن لڑیں گے۔انہوں نے اپنے دور میں چترل کی ٹنل بنوائی تھی اور مقامی لوگوں کی طرف سے اسے سراہا گیا تھا،انہیں توقع ہوسکتی تھی کہ یہاں سے انہیں کچھ ووٹ مل جائیں گے،لیکن اب اس حلقے سے بھی ان کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد وہ ذاتی طور پر تو الیکشن کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں، البتہ ان کی پارٹی کے امیدوار میدان میں ہیں، ان امیدواروں میں سے کتنے جیت پائیں گے، اس کا اندازہ تو الیکشن کے نتائج سے ہی ہوگا، البتہ جہاں تک جنرل ( ر) پرویز مشرف کی ذات کا تعلق ہے ، انتخابات میں ان کا ذاتی کردارتقریباً ختم ہوگیا ہے، اب اگر وہ انتخابی مہم میں مناسب خیال فرمائیں تو اپنے امیدواروں کے لئے میدان میں نکلیں اور اپنی تقریروں سے اگر ان امیدواروں کی جیت میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں تو ضرور ادا کریں، لیکن ان کی سیکیورٹی کے حوالے سے جس قسم کی خبریں آ رہی ہیں،لگتا نہیں کہ وہ چک شہزاد میں اپنے سرسبزوشاداب فارم ہاﺅس سے باہر نکلنا پسند کریں گے۔
جنرل ( ر) پرویز مشرف کو میاں نوازشریف نے جب وہ وزیراعظم تھے،دو سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے آرمی چیف کے عہدے پر تعینات کیا تھا، ان کے یہ عہدہ سنبھالتے ہی اس قسم کی خبریں منظرِعام پر آنا شروع ہوگئی تھیں کہ وزیراعظم اور آرمی چیف ایک ہی صفحے پر نہیں ہیں اور دونوں میں بعض امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اختلافات کا تذکرہ ذرا زیادہ نمایاں انداز میں ہونے لگا۔قومی اسمبلی میں تو میاں نوازشریف کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل تھی، لیکن پارلیمنٹ سے باہر بعض بڑی چھوٹی جماعتیں مل کر میاں نوازشریف کے خلاف مہم چلا رہی تھیںجنہیں طاقت کے مراکز کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔انہی دنوں جنرل ( ر) پرویز مشرف کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا، یہ دوسرا عہدہ ملنے کے باوجود یہ تاثر ختم نہ ہو سکا کہ ملک کے دو بڑوں میں اختلافات موجودہیں۔
یہ اطلاعات بھی منظرِ عام پر آتی رہیں کہ جنرل( ر) پرویز مشرف نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاری کررہے ہیں،(اب اس کی تصدیق جنرل کے ساتھی جرنیل نے بھی کردی ہے)....ان اطلاعات پر نوازشریف نے آرمی چیف کو اس وقت برطرف کردیا جب وہ سری لنکا کے دورے سے واپس آ رہے تھے اور ابھی جہاز میں ہی تھے ، آرمی چیف نے جوابی کارروائی کرکے نوازشریف کو گرفتار کرلیا، اس وقت ان واقعات کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، آرمی چیف نے پہلے چیف ایگزیکٹو کے طور پر ملک کا نظم و نسق سنبھالا، پھر وہ صدر بن گئے، ایک بار صدارتی ریفرنڈم کرایا اور دوسری بار انہی اسمبلیوں سے دوبارہ صدر منتخب ہوگئے،جن کی مدت ختم ہونے والی تھی، وہ صدر تو ”منتخب“ ہوگئے،لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور عدلیہ کے ساتھ ان کی چھیڑچھاڑ نے سیاست میں بھونچال پیدا کردیا۔بے نظیر بھٹو واپس آئیں اور انتخابی مہم کے دوران لیاقت باغ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں،18فروری 2008ءکو انتخاب ہوئے۔اس سے پہلے نوازشریف بھی جلا وطنی سے واپس آ گئے اور اس روز لاہور پہنچے،جب کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کا آخری دن تھا۔ جنرل ( ر) پرویز مشرف الیکشن کے بعد بمشکل چھ ماہ تک صدر کے عہدے پر فائز رہ سکے، اور حالات ایسے ہوگئے کہ انہیں استعفا دے کر گھر جانا پڑا، کچھ عرصے کے بعد وہ ملک بھی چھوڑ گئے اور ملک سے باہر ہی اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ بنا لی۔
ملک کی تاریخ میں چار فوجی حکومتیں قائم ہوئیں، پہلے دو فوجی حکمران یعنی فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان تو اقتدار سے الگ ہونے کے بعد گوشہ گیر ہوگئے اور پھر کبھی منظر عام پر نہیں آئے۔تیسرے فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق طیارے کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے، جنرل پرویز مشرف وہ واحد فوجی حکمران ہیں ،جنہوں نے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی اپنے جی میں دوبارہ برسراقتدار آنے کی حسرت پالے رکھی۔صدارتی عہدہ چھوڑتے ہوئے تو انہوں نے کہا تھا، ”اب ملک کا اللہ ہی حافظ“ لیکن وہ دوبارہ اس عزم کے ساتھ وطن واپس آئے ہیں کہ وہ ملک کو بچانا چاہتے ہیں۔پہلی دفعہ جب وہ ملک کو بچانے کے لئے آئے تھے تو وہ آرمی چیف تھے، ان کا ہر حکم بلاچون و چرا مانا جاتا تھا، وہ پس منظر میں رہ کراپنی پسند کا جوڑ توڑ کرتے رہتے تھے۔جب آرمی ساتھ ہوتو پھر اس طرح کا جوڑ توڑ نتیجہ خیز بھی ہوتا ہے،چنانچہ جب 2002ءکے الیکشن میں ان کی بنائی ہوئی جماعت مسلم لیگ(ق) کو باوجود کوششوں کے اکثریت نہ ملی تو ان کے ایماءپر طاقت ور اداروں نے حکومت سازی کی کوششیں کیں، اسمبلی کے اندر لوگوں کو زبردستی مسلم لیگ(ق) کے ساتھ ملایا، پیپلزپارٹی سے ایک بڑا گروپ ”پیٹریاٹ“ کے نام سے الگ کیا گیااور یوں میر ظفر اللہ جمالی کی ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت بنوائی گئی۔پھر شوکت عزیز کے لئے راستہ صاف کرنے کے لئے چودھری شجاعت حسین کو عبوری وزیراعظم بنایا گیا، شوکت عزیز ضمنی الیکشن میں منتخب ہو کر وزیراعظم ہوئے وہ تو دوسری بار بھی وزیراعظم بننا چاہتے تھے، لیکن مسلم لیگ(ق) نے انہیں ٹکٹ ہی نہ دیا تو وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

مزید :

اداریہ -