گہر ہونے تک

گہر ہونے تک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیپلز پارٹی کے کارکن 1997کے انتخابات کے برعکس اس بارگھر بیٹھے رہنے کے بجائے عمران خان کو ووٹ دے کر پارٹی لیڈرشپ کے خلاف اپنے غصے کااظہار کرنا چاہتے ہیں،جیالوں کا یہ رویہ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی والا معاملہ ہے، وہ نواز مخالفت میں اس قدر آگے نکلتے جارہے ہیں کہ ان کی واپسی کا راستہ مسدود ہوتا جا رہا ہے ، وہ بُغضِ معاویہ میں اس قدراندھے ہو چکے ہیںکہ حُبّ ِ علی ان کے لئے طعنہ بن گئی ہے !
پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہے، اتنا بڑاخطرہ پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاءالحق سے نہ تھا جتنے بڑے خطرے سے آصف زرداری نے پارٹی کو دوچار کر دیا ہے،کیونکہ جو کام جنرل ضیا ءالحق باہر سے نہ کر سکے وہ کام آصف زرداری نے اندر بیٹھ کر کردیا ہے، 1997میںلوگ آصف زرداری سے ناراض تھے، 2013میں بھی لوگ انہی سے ناراض ہیں، اس وقت اس ناراضگی کی قیمت بے نظیر بھٹو نے ادا کی تھی، اب کے یہ قیمت بھٹو کے جیالے ادا کریںگے ،یہ الگ بات کہ پیپلز پارٹی کے ورکر جس طرح بڑے شہروں میں سوچتے ہیں غالباً اس طرح چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں نہیں سوچتے ہیں، وہاں ابھی بھی بھٹو دے نعرے وجن گے اور یا اللہ یا رسول ، بے نظر بے قصور کا ورد ہوتا ہے اور لوگ بلاول بھٹو کو اپنا نجات دہندہ مان کر اس کا انتظار کر رہے ہیں اور اب بھی پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ہی جتانے میں جتے ہوئے ہیں!
دراصل بھٹو کا جیالا ہونا ایک خاص ذہنی کیفیت کا نام ہے، اس کی کوئی منطق نہیں ہوتی ، پچھلے چالیس برسوں سے جیالوں نے بھٹو کا رٹّا لگا رکھا ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے چالیس برسوں میں پاکستان میںجتنی بار بھٹو کا نام گونجا ہے شاید اتنی بار قائد اعظم کا نام بھی نہ گونجا ہوگا!
یہ جیالوں کی بھٹو سے انمٹ عقیدت ہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو درپیش بحرانی صورت حال میں وہ انتہائی گہری سیاسی سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیںکہ نواز شریف کے لئے راستہ کھلا نہیں چھوڑنا چاہتے ،انہیں معلوم ہے کہ یہ الیکشن پیپلز پارٹی کا نہیں ہے کیونکہ ابھی بلاول بھٹو صحیح طور پر پرفارم کرنے کے قابل نہیں ہے، اس لئے وہ شطرنج کے مشاق کھلاڑی کی طرح چال چلتے ہوئے عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ٹھان چکے ہیں اورعمران سے کچھ کر دکھانے کی توقع باندھے ہوئے ہیں،وہ نواز شریف کے شیر کو عمران خان کے بلے سے مار مار کر ادھ موا کردینا چاہتے ہیںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان نے نواز شریف کو اس بار چت کردیا تو اگلی بار بلاول بھٹو عمران خان کو کھا جائے گا، بس یہی ایک یقین ہے جس کے بل بوتے پر پیپلز پارٹی کے جیالے ایک ایک کرکے عمران کے چیلے بنتے جا رہے ہیں!
آج کل جیالے کھلے بندوں آصف زرداری کے کاموں کی تعریف نہیں کرتے ، اس کی سیاسی چالوں پر واہ واہ کے ڈونگرے نہیں برساتے ، جب موقع ملتا ہے تو بس یہی کہتے ہیں کہ ہم ان گندے سیاستدانوں کو ووٹ ڈالنا ہی نہیں ہے اورجب وہ سیاستدانوں کو گندا کہہ رہے ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی سے زیادہ ان کا روئے سخن ن لیگ کی قیادت کی جانب ہوتا ہے اور دوسری فوری بات ان کے منہ پر یہ ہوتی ہے کہ عمران خان اچھا ہے، تبدیلی کی بات کرتا ہے ، اس لئے اس بار اس کو ووٹ ڈالیں گے!
سوال یہ ہے کہ کیا اس حکمت عملی سے جیالا پیپلز پارٹی کو بچاپائے گا، کیا اس کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری سے باندھی گئی توقعات پوری ہو سکیںگی جس کی پہلے ہی اپنے باپ اور پھوپھو سے نہیں بن رہی ہے، اگر صورت حال یہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب بلاول بھٹو اپنے باپ اور پھوپھو کی پارٹی کے خلاف عمران خان یا نواز شریف کی پارٹی جوائن کرنے کا اعلان کرتا نظر آئے گا، ،کبھی لوگ کہتے تھے کہ پیپلز پارٹی میں ایجنسیوں کے آدمی گھسے ہوئے ہیں، آئندہ لوگ کہا کریں گے کہ پیپلز پارٹی ایجنسیوں کی پارٹی ہے اور اگرا ٓصف زرداری کی پرو اسٹیبلشمنٹ اپروچ ختم نہ ہوئی تو بلاول بھٹو آنے والے وقت میں اسٹیبلشمنٹ کے بہت بڑے مہرے کے طور پر جانا جائے گا!
عمران خان کے شیدائی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ عمران خان ایک بڑا لیڈر بن گیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان کا سیاسی زور ہر نئے آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ زور ان حلقوں میں بھی نظر آئے گا جہاں عمران خان خود نہیں کھڑا ہے، ممکن ہے کہ شہروں میں عمران خان کی پارٹی جو رزلٹ دکھائے وہ دیہاتوں کی سطح پر نہ نظر آئے کیونکہ دیہاتوں کے لوگ شہریوں کی طرح چالاک اور عیار نہیں ہوتے، ہوں بھی تو انہیں ایک دوسرے کی شرم، ایک دوسرے کا پاس اور لحاظ ہوتا ہے، شہروں میں لوگ لمحے بھر میں ماتھے پر آنکھیں رکھنے کے ماہر ہوتے ہیں، اس لئے شہروں کی حد تک عمرا ن خان کو ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی مبارک ہو کہ کم از کم اس الیکشن کے لئے تو عمران ہی جیالوں کے بلاول ہیں!
مسلم لیگ ن بھی اس صورت حال کو خوب اچھی طرح سمجھ رہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کی جانب سے پیپلز پارٹی کے جیالوں کو ضرورت سے زیادہ ناراض نہیں کر رہی کہ کہیں وہ اس قدر نہ بھڑک جائیں کہ ضد میں آکر 11مئی کو پولنگ سٹیشنوں پر سب سے آگے کھڑے ہوں، لیکن مسلم لیگ ن کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ عمران خان کا بھی غیر ضروری تذکرہ کر کے اس کے سیاسی قد کو اپنے برابر نہیں ہونے دینا چاہتی، یہ پروین شاکر کی زبان میں عقب میں گہرا سمندر سامنے کھلا جنگل والا معاملہ ہے، دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!

مزید :

کالم -