دہشتگردوں کی سیاسی جماعتوں کو دھمکیوں پر چیف جسٹس الیکشن کمیشن اور سکیورٹی ادارے خاموش ہیں

دہشتگردوں کی سیاسی جماعتوں کو دھمکیوں پر چیف جسٹس الیکشن کمیشن اور سکیورٹی ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

                  اسلام آباد (این این آئی)اراکین سینیٹ نے کہا ہے کہ کالعدم جماعتوں کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو دھمکیاںدینے پر چیف جسٹس، الیکشن کمیشن اور سیکیورٹی ادارے خاموش ہیں، 2002ءکے الیکشن کی صورتحال پیدا کی جارہی ہے، تمام سیاستدانوں کی قیادت کو بلا یا جائے اور دہشت گردی کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات کئے جائیں جبکہ نگران وزیر داخلہ ملک حبیب نے یقین دہانی کرائی کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق تمام امیدواروں کو سیکیورٹی فراہم کی جائیگی، اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور کہیں اور سے کوئی مداخلت نہیں کی جارہی ،، امن وامان کی ذمہ داری صوبوں کی ہے ، ہمارا کام ملک میں صاف شفاف انتخابات کرانا ہیں ،کسی لیڈر سے سیکیورٹی واپس نہیں لے رہے، اراکین سینیٹ کے تحفظات دور کئے جائینگے۔منگل کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری کی صدارت میں ہوا،نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ حکومت ریکوڈک کے معاہدہ کرنے جارہی ہے، یہ وفاقی حکومت کا دائرہ کار نہیں ہے اگر کریگی تو صوبائی حکومت اس کی پاسداری نہیں کریگی، وفاقی وزیر قانون احمر بلال نے کہا کہ ہم کوئی طویل المدت پالیسی نہیں بنائیں گے، اجلاس میں امن وامان کی صورتحال پر ہونیوالی بحث میں حصہ لیتے ہوئے اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ نگران وزیر سینیٹ میں نہیں آتے ہیں، کمیٹیوں میں آنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ ووٹر کا تحفظ نہیں کیا جارہا، وہ ووٹ ڈالنے کیلئے آئیگا، امیدواروں کے ساتھ ووٹر کا بھی تحفظ کریں، طالبان نے تین جماعتوں کو دھمکی دی ہے ایک صوبے کی جماعت کو آزادی ہے ، ان کے ریمارکس پر سینیٹر راجہ ظفر الحق نے احتجاج کیا کہ آپ ہماری طرف اشارہ کیوں کررہے ہیں کیا طالبان کی بات حرف آخر ہے، حاجی عدیل نے کہا کہ آپ ہر بات کو اپنی طرف کیوں لے جاتے ہیں، پنجاب میں حالات بہتر ہیں، ہمارے علاقے میں خواتین ووٹ کیسے ڈالیں گی۔ جے یو آئی ف کے سینیٹر حاجی غلام علی نے کہا کہ ہمارے علاقے میں شناختی کارڈ سال سال کیلئے بلاک کرلیتے ہیں سیکیورٹی کلیئرنس کے حوالے سے الیکشن کیلئے میری درخواست ہے وزیر داخلہ ایسے اقدامات کریں کہ بلاک شناختی کارڈ جاری کروائیں سیاسی گروہ بندی کاتاثر ختم کریں، پی پی پی کے میاں رضا ربانی نے کہا کہ ملک کی تین سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی ، سیکیورٹی تھریڈ کا خدشہ ہے، پی پی پی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم بد قسمتی سے کھل کر سامنے آئی ہیں، تنظیموں کے ترجمان بیان بھی دے رہے ہیں مگر دوسری جماعتوں نے اس کی نہ تو درخواست کی ہے نہ اس کا نوٹس لیا ہے ، تینوں جماعتوں کا تعلق ایک سوچ، فکر فلسفے کے ساتھ ہے، تینوں جماعتیں لبرل ڈیموکریٹک فورس کہلاتی ہیں ان کو ٹارگٹ کرنا اور تمام ریاستی اداروں کی خاموشی اس بات کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ 2002ءکے الیکشن کی صورتحال پیدا کی جارہی ہے ،ایک سوچ کے تحت آمر نے حالات ایسے پیدا کئے جس سے لبرل ڈیمو کریٹک پارٹیاں کم نمائندگی حاصل کریں۔ تاریخ گواہ ہے ہم نے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، قیادتوں کو شہادت ہوئی مگر ہم نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی نہ کرینگے، آپ سیکیورٹی کے نام پر سابق وزیراعظم یا وزیراعلی سے سیکیورٹی واپس لے رہے ہیں مگر آپ کے توسط سے چیف الیکشن کمشنر سے سوال ہے کہ کیا وہ شخص جس نے آئین کو پامال کیا جو اکبر بگٹی ، محترمہ کے قتل میں شامل ہے جس نے عدلیہ کی تذلیل کی ، پابند سلاسل کیا ، دو مرتبہ اس نے آئین کو پامال کیا اس کیلئے پورے ملک کی سیکیورٹی ہے، کمانڈوز کی بٹالین ہے یہ کون سا انصاف ہے اگر وہ سابق چیف آف آرمی سٹاف ہے تو الیکشن نہ لڑے اگر لڑے گا تو عام نمائندے والا پروٹوکول دیں یہ دوہرہ معیار نہیں چلے گا اگر کوئی اس خام خیالی کے اندر ہے کہ اس طرح کی دھمکیاں دے کر خون خرابہ کرا کے الیکشن کا التواءکروائے گا تو وہ خام خیالی میں ہے اگر التواءہوا تو وفاق کی موجودہ صورتحال باقی نہ رہ سکے گی، بلوچستان الیکشن چاہتا ہے سلیکشن نہیں ان کے جائز مطالبات تسلیم کرے ورنہ حالات مزید خراب ہونگے، اے این پی کے زاہد خان نے کہا کہ دو تحریک التواءموجود ہیں ان کو کل ایوان میں لائینگے، ضیاءالحق 90 دن کیلئے آیا تھا مگر 11 سال حکومت کر گیا صرف امریکی مفاد کیلئے، 2002ءمیں بھی الیکشن ہوا ، پرویز مشرف کو 17 ویں ترمیم میں تحفظ دیا گیا آج بھی عوام کو الیکشن سے دور کیا جارہا ہے اگر آج بھی سامراج کو دوبارہ ضرورت ہے ایسے ہی لوگوں کی تو کیا ہوگا، طالبان نے بھی تین پارٹیوں کو دھمکی دی ہے، کیا الیکشن کمیشن یا چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا ، کسی پارٹی نے اس بیان کی مذمت کی کیا اس طرح شفاف الیکشن ہوگا، کچھ پارٹیاں کہہ رہی ہیں کہ جو بویا تھا وہ کاٹ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ کراچی میں رینجرز کا کردار سب کے سامنے ہے، گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں ، سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ایم کیو ایم کے دفاتر کے باہر کارکنوں کی تلاشی لے رہے ہیں، کارکنوں کو مہاجروں کو شناخت کے بعد مزید مارا جاتا ہے ان کے شناختی کارڈ بھی غائب کر دیتے ہیں، حلقہ بندیاں بھی کی جارہی ہیں، کالعدم تنظیمیں ہمارے خلاف کارروائیاں کررہی ہیں، انہوں نے کہا کہ فورسز کی کارروائی کا الیکشن کمیشن اور حکومت نوٹس لے ورنہ عوام خود ہتھیار لیکر سڑکوں پر ہونگے، اس کو روکیں جس پر چیئرمین نے کہا کہ آپ کے ملازم کو اٹھایا ہے تو تحریک استحقاق لائیں، پی پی پی کے فتح محمد حسنی نے کہا کہ ہمیں صاف شفاف الیکشن چاہئے، وزیر داخلہ ایسی پالیسی بیان کریں ، اے این پی کے شاہی سید نے کہا کہ کراچی کے حالات ایسے ہیں کہ فون آتے ہیں افغانستان سے دبئی سے کچھ لوکل نمبر ہیں ان کی لسٹ دی ہے ایجنسیاں بھی یہی کہتی ہیں کہ احتیاط کریں مگر اس کے باوجود ہماری سیکیورٹی واپس لینا کیا معانی رکھتا ہے، ٹارگٹڈ آپریشن پہلے کرنا چاہئے تھا معصوم لوگ بھی اٹھائے جارہے ہیں یہ گنجان آبادی ہے آپریشن میں نامی گرامی مجرم مارے جارہے ہیں مگر میری پارٹی کے لوگ سب سے زیادہ مارے جارہے ہیں، تین جماعتوں کے علاوہ کوئی جمہوریت کو نہیں مانتا ہے ہم صرف ظالمان کا اسلام نہیں مانیں گے ہم مرنے کیلئے تیار ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے مخالفین نے سابق جاگیرداروں کی طرح طالبان پال رکھے ہیں ، امیر مقام کے پاس اسلام آباد کی سیکیورٹی ہے ہمارے پاس نہیں ہے، ہم 13 تھے اسمبلی میں اگر ایک بھی رہ گیا تو یہی کہیں گے کہ وہ ظالمان ہیں، ق لیگ کے سید مشاہد حسین نے کہا کہ پہلا الیکشن ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کا کوئی رول نہیں ہے فیصلے عدلیہ، الیکشن کمیشن کررہے ہیں، صرف کچھ نالائقی ہے ، دہشتگردی سے ٹھیک طریقے سے نمٹا نہیں جارہا میری تجویز ہے کہ تمام سیاستدانوں کی قیادت کو بلا کر اعلی سطحی اجلاس بلا کر اس حوالے سے اقدامات کئے جائیں، کراچی میں پولیٹیکل پارٹیوں کے ونگز تھے جو کارروائیاں کررہے ہیں، حکومت کو اس حوالے سے بھی اقدامات کرنے چاہئیں، فاٹا کے عباس خان آفریدی نے کہا کہ وزیر داخلہ فیصلہ دے دیں ہم نے آئی جی سے بات کی تھی وہ کہتے ہیں وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ آپ کیلئے سیکیورٹی نہیں ہے، پی پی پی کے فتح محمد حسنی نے کہا کہ چیئرمین آپ تو سیریس ہی نہیں ہیں، آپ کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتا، بلوچستان جل رہاہ ے یہاں یہی دستور رہا ہے پہلے لوگوں کو ذلیل کریں ان کو پہاڑوں پر بھجواتے ہیں، سیکیورٹی جس طرح فراہم کی جارہی ہے وہ ٹھیک نہیں ہے لوگ مررہے ہیں ذلیل ہو رہے ہیں، سابق ادوار والے الیکشن نہیں چاہئیں، وزیر داخلہ سے پالیسی بتائیں، چیئرمین نے کہا کہ آپ کا رویہ مناسب نہیں ہے اس طرح ایوان نہیں چلایا جاتا ہے، وزیر داخلہ ملک حبیب خان نے کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق بلا تفریق سب کو سیکیورٹی دینگے اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور کہیں اور سے کوئی مداخلت نہیں کی جارہی میں نے بلوچستان کا دورہ کیا ہے میں ایک پروفیشنل پولیس افسر رہا ہوں، امن وامان کی ذمہ داری صوبوں کی ہے اگر ان کو چاہئے تو سول آرم فورس دے سکتے ہیں، میں نے بلوچستان جا کر قیادت کے تحفظ سنے ہیں میں چمن گیا وہاں ایف سی کمانڈر سے بھی بات ہوئی کراچی کے حالات پر الطاف حسین سے بھی بات ہوئی ہے صوبائی حکومت اور پولیس سے رابطے میں ہوں، ملزمان کو پکڑیں گے ، وزیراعظم نے مجھے اے این پی سے میٹنگ کیلئے کہا ہے کہ ان کے تحفظات دور کروں، تمام امیدواروں اور لیڈروں کی سیکیورٹی کو یقینی بنائینگے۔

مزید :

صفحہ اول -