طالبان کا جنگ بندی میں توسیع سے انکار
اسلام آباد، وانا( اے این این، آئی این پی، آن لائن) کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے رابطوں سے پیدا ہونے والی مثبت صورتحال منفی ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس سے مذاکرات کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ طالبان نے ریاست کے خلاف جنگ بندی میں مزید توسیع سے انکار کردیا ہے جس کے باعث مفاہمت کی منزل دوراور راستہ کٹھن معلوم ہونے لگا ہے اس صورتحال میں حکومت اور طالبان کی کمیٹیاں یا تو بے اثر ہوجائیں گی یا پھر انہیں فریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی غرض سے سخت جدوجہد کرنا پڑے گی۔ تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس آج (جمعرات) طلب کرلیا ہے، تینوں مسلح افواج کے سربراہ بھی اس کمیٹی کے ارکان میں شامل ہیں۔ اس طرح ملک کی حکومتی اور فوجی قیادت سرجوڑ کر بیٹھے گی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں مستقل کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیئے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سیاسی شوریٰ نے تین روز تک غورکرنے کے بعدحکومت سے جنگ بندی میں مزیدتوسیع نہ کرنے کامتفقہ فیصلہ کرلیا ہے اور واضح کیاہے کہ اگرحکومت نے مذاکراتی عمل کے سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش کی تو وہ بھی مناسب جواب دینگے ۔ تحریک طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے الزام لگایا کہ طالبان کی جانب سے40روزہ جنگ بندی کا حکومت نے مناسب جواب نہیں دیاچنانچہ اب طالبان شوریٰ نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ جنگ بندی میں مزید توسیع نہیں ہو گی ۔انہوں نے حکومت سے استفسارکیاکہ فقدان اس کی صفوں میں ہے یا طالبان کی صفوں میں ؟۔انہوںنے دعویٰ کیاکہ40دن میں طالبان کے 50سے زائدزیر حراست ساتھی مارے گئے۔ واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ کا اجلاس پیرکو قبائلی علاقے وزیرستان کے نا معلوم مقام پر شرو ع ہواتھا جس میں حکومت سے مذاکرات اور فائر بندی میں توسیع سے متعلق امور پر غور کیا گیا جبکہ غیر عسکری قیدیوں کی رہائی اور حکومت کی طرف سے پیس زون کے قیام سے متعلق تاحال کوئی اعلان نہ کیے جانے پر بھی گفت و شنید کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق طالبان شوریٰ نے دو متحارب دھڑوں کے درمیان مسلح جھڑپیں بند کرانے کی کوششیں تیز کرنے پر بات چیت کی۔ حالیہ دنوں میں وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے دو دھڑوں کے درمیان جھڑپوں میں اطلاعات کے مطابق 40 سے زائد جنگجو مارے جا چکے ہیں۔ قبائلی ذرائع کے مطابق خان سید سجنا اور ولی الرحمان گروپ کے جنگجوں کے درمیان یہ جھڑپیں وزیرستان میں تنظیم کی امارت پر ہوئیں۔ یاد رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے یکم مارچ کو ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں 10 اپریل تک توسیع کی گئی تھی۔ حکومت کی مذاکرتی کمیٹی اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا دوسرا دور جلد متوقع ہے مگرتاحال اس بارے میں کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔دریں اثناءکالعدم تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کے سرابراہ عمر خالد خراسانی نے بھی الزام لگایا ہے کہ حکومت قیام امن میں دلچسپی نہیں رکھتی، ایک بیان میں انہوںنے کہا کہ حقیقی شریعت کے نفاذ کا واحد طریقہ جہاد ہے۔طالبان رابطہ کمیٹی کے رکن پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ جنگ بندی برقرار رہنی چاہئے، اس ضمن میں وہ طالبان کے مطالبات حکومت تک پہنچائیں گے۔تازہ ترین صورتحال پر غور کے لئے وزیراعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کے بارے میں کابینہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس آج(جمعرات) طلب کرلیا ہے۔ اجلاس میں دفاع، داخلہ اطلاعات کے وزراءاور قومی سلامتی کے لئے وزیراعظم کے مشیر شریک ہونگے۔ اس موقع پر پاک فوج کی نمائندگی چیئرمین جوائنٹ چفیس آف سٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈائریکٹر جنرل آئی جی کریں گے۔کابینہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ اجلاس میں قومی سلامتی سے متعلق معاملات اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر غور کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان طالبان کے مطالبات اور مذاکراتی عمل کے بارے میں تازہ ترین صورتحال پر بریفنگ دیں گے۔ اجلاس میں افغانستان کے حالیہ انتخابات اور پاکستان پر ان کے اثرات سے متعلق بھی گفت و شنید کی جائے گی۔شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ مذاکرات جاری رہیں گے تاہم واضح حکومتی پیش رفت پر ہی اب تحریک طالبان کوئی سنجیدہ اقدام اٹھائے گی۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی شوریٰ نے متفقہ طور پر کیا ہے تاہم مذاکراتی عمل کو پورے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ اب بھی جاری رکھا جائے گا۔ پیس زون، غیر عسکری قیدیوں کی رہائی اور طالبان مخالف کارروائیاں روکنے سے متعلق حکومت نے تحریک طالبان پاکستان کے ابتدائی مطالبات پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں کی۔ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے 40 روزہ جنگ بندی کے دوران اس کے 50 سے زائد زیر حراست لوگوں کو مار دیا گیا اور 200 سے زائد کو گرفتار کیا گیا۔ سیز فائر میں توسیع کی مدت گزرے بھی 6 دن ہوچکے مگر حکومتی ایوانوں میں مذاکرات کے حوالے سے پراسرار خاموشی طوری ہے اور مجموعی صورت حال یہ واضح کررہی ہے کہ طاقت کے اصل محور متحرک ہوچکے ہیں اور وہ اپنی مرضی کے فیصلے قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق خالد عمر خراسانی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ مذاکرات کا عمل لاحاصل ہے، کسی ایک قبائلی ایجنسی یا علاقے میں شریعت کے نفاذ سے کام نہیں چلے گا۔ ہمیں مذاکرات کے نام پر کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مذاکراتی عمل کے بے نتیجہ ہونے کا پہلے سے ہی اندیشہ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت طالبان کے 19 سے زائد غیر عسکری قیدیوں کو رہا بھی کرچکی اور ڈرون حملے بھی بند ہیں تو ایسے وقت میں طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا خاتمہ یہ سوال پیدا کررہا ہے کہ کیا طالبان نے فوج اور حکومت کے درمیان تناﺅ کی افواہوں سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی بنالی ہے؟