جے آئی ٹی کی تحقیقات کا انتظار کیا جائے
سپریم کورٹ کے سینئر جج مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن کی ماڈل ٹاؤن میں واقع رہائش (112 ایچ ٹو) پر دوبار پر اسرار انداز میں فائرنگ کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے فوری طور پر واقعہ کا نوٹس لے لیا اور جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پہنچ گئے، پولیس، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور فرانزک ماہرین پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب پولیس کو بھی طلب کرکے ہدایت کی کہ فائرنگ کے محرکات کا جائزہ لیا جائے۔ وزیراعظم نے ملزموں کو جلد کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی ہے، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے پارلیمان، عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے، حکومت پنجاب نے اسے بہت شرمناک واقعہ قرار دیا ہے اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے، پنجاب حکومت کے ایک اعلان کے مطابق وزیراعلیٰ تحقیقات کو خود مانیٹر کررہے ہیں، وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ فائرنگ میں ملوث شر پسند عناصر کو بے نقاب ہونا چاہئے، وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے اس واقعہ کو وحشیانہ فعل قرار دیا ہے، صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ فائرنگ کے ملزموں کو جلد کٹہرے میں لایا جائیگا، اپوزیشن جماعتوں کا ردعمل یہ سامنے آیا ہے کہ ججوں کو دھمکانا نا قابلِ معافی عمل ہے، آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔
اس واقعہ پر وکلاء کا فوری ردعمل یہ ہے کہ انہوں نے ہڑتال (عدالتوں کا بائیکاٹ) کا اعلان کردیا، لیکن چیف جسٹس نے مداخلت کرکے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں، ہڑتال سے سائلین متاثر ہوتے ہیں اور انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چنانچہ وکلاء اپنے عزم و ارادے کے باوجود ہڑتال کے اقدام سے رک گئے، البتہ بعض سیاستدانوں نے اس واقعہ پر جس انداز میں اور جتنی جلد بازی سے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اسے محتاط سے محتاط الفاظ میں بھی اگر بچگانہ نہیں تو غیر ذمہ دارانہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے، اتوار کے روز جب یہ واقعہ سامنے آیا چیف جسٹس بھی اتفاق سے لاہور میں تھے اور وہ فوری طور پر ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے اور ضروری اور مناسب احکامات صادر فرمائے جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں اندازہ ہے کہ تفتیش کا کام شروع ہو چکا ہوگا، تفتیشی ادارے تو ظاہر ہے تفتیش کے بعد ہی کوئی رائے قائم کریں گے، البتہ ہمارے بعض سیاسی رہنماؤں کو کسی تفتیش کی کوئی ضرورت ہے نہ حاجت وہ اس سے پہلے ہی اپنی اپنی پسند کے نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے اس کا اعلان بھی کردیا ہے، ایسے میں اگر ان کا فرمان ہی مستند اور حتمی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر کسی تفتیش کی ضرورت ہی کیا ہے،کیوں نہ ان کے فرمودات کو ہی درست مان لیا جائے؟
فائرنگ کے دو واقعات میں گیارہ گھنٹے کا وقفہ ہے پہلی فائرنگ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پونے گیارہ بجے ہوئی جب کہ دوسرا واقعہ صبح پونے دس بجے ہوا، چونکہ پہلی فائرنگ کے وقت رات کافی گزر چکی تھی اس لئے شاید چیف جسٹس کو فوری طور پر اطلاع نہ دی جاسکی یا انہیں اس وقت اطلاع دینا مناسب نہ سمجھا گیا اس لئے وہ صبح کی فائرنگ کی اطلاع پر جناب جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر گئے اور یہیں سے احکامات اور اقدامات کا سلسلہ شروع ہوا، موقع سے ملنے والی دو گولیاں نائن ایم ایم پستول کی بتائی گئی ہیں یہ کتنے فاصلے سے چلائی گئیں اور ان کا ٹارگٹ کیا تھا یہ بھی فرانزک رپورٹ کے بعد ہی معلوم ہوگا، اس پستول کی رینج زیادہ نہیں ہوتی، ویسے بھی یہ علاقہ ہائی سکیورٹی زون ہے اور غیر متعلقہ لوگوں کا آسانی سے اس سڑک سے گزرنا ممکن نہیں ہے، قریب ہی وزیراعلیٰ کی رہائش بھی ہے وہاں بھی سکیورٹی موجود ہوگی، اس لئے کسی مسلح شخص کا اس سڑک سے گذرنا اور پھر گھر کے قریب آ کر اس طرح فائرنگ کرنا کہ گولیاں گھر کے اندر جا گریں، بظاہر ممکنات میں نہیں لگتا، تفتیشی ادارے لازماً اس امکان کو بھی پیشِ نظر رکھیں گے، کہ جو گولیاں گھر سے ملی ہیں وہ ’’سڑے بلٹس‘‘ تو نہیں۔
بعض بیانات اس یقین کے ساتھ جاری کردیئے گئے ہیں فائرنگ کا ٹارگٹ یقینی طور پر جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر کے مکین تھے، ممکن ہے، ایسا ہی ہو لیکن جے آئی ٹی جب تک اس بات کا تعین شواہد کی روشنی میں نہیں کردیتی اس وقت تک اس سلسلے میں کوئی بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی، تاہم سپریم کورٹ سے ہونے والے حالیہ فیصلوں اور جاری مقدمات کو سامنے رکھ کر کسی تحقیقات کے بغیر بھی کوئی رائے قائم کرنا چونکہ آسان ترین کام نظر آتا ہے اور ہمارے سیاسی کلچر میں یہ عام سی بات ہے اس لئے بعض مخصوص اہداف کو ٹارگٹ کرکے چاند ماری کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جو غالباً اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جے آئی ٹی کی رپورٹ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہیں کردیتی، ماڈل ٹاؤن تھانے میں وقوعے کا جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں اقدامِ قتل اور دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں اس لئے لازمی طور پر اس پہلو سے بھی تفتیش ہوگی تاہم ہمارے خیال میں درج ذیل سوالات ایسے ہیں جن کا جواب بہر حال تلاش کرنا ہوگا تب ہی کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہوگا (۱) یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ فائرنگ کرنے والا (یا والے) کون ہیں، (۲) فائرنگ قریب سے ہوئی یا دور سے، اور اگر قریب سے ہوئی تو سکیورٹی پر مامور اہل کاروں کے پاس سے ایک مسلح شخص کیسے بچ کر نکل گیا۔ (۳) فائرنگ کے مقاصد کیا تھے، کیا اس کا مقصد دہشت اور سنسنی پھیلانا تھا یا ٹارگٹ کچھ اور تھا، (۴) کیونکہ گولیاں دو مختلف اوقات میں چلائی گئی ہیں، اس لئے یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ کام ایک شخص نے کیا یا دو مختلف افراد ملوث ہیں۔
توقع ہے ان سوالات کا جواب جے آئی ٹی حاصل کرلے گی، یہ بھی ممکن ہے فائرنگ کرنے والا ملزم گرفتار بھی ہوجائے اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر فائرنگ کے مقاصد سامنے لانا بہت آسان ہوجاتا ہے، یہ بھی پتہ چل جائیگا کہ ایسا کوئی شرارتی شخص کسی کا آأہ کار تھا یا ویسے ہی سنسنی پھیلانے کا شوق پورا کرنے کے خبط میں مبتلا تھا کیونکہ آج کے دور میں بعض لوگوں نے عجیب و غریب شوق بھی پالے ہوئے ہیں اس کا مطلب یہی ہوگا کہ بنیادی کوشش ملزم کی گرفتاری پر مرکوز ہونی چاہئے، اس کے بعد تفتیش صحیح سمت میں چل پڑے گی۔ فرض کریں اگر ملزم گرفتار نہیں ہو پاتا اور جے آئی ٹی کسی حتمی نتیجے پر بھی نہیں پہنچتی تو شکوک و شبہات کی موجودہ فضا مزید گھمبیر ہوگی اور بعض لوگ جلتی پر تیل ڈالنے کی مشق تیز کردیں گے کیونکہ ایسی فضا میں ان کے مقاصد پورے ہوتے ہیں، اور انہیں بیان جاری کرنے میں بھی سہولت حاصل رہے گی، تاہم ایک گزارش ضروری ہے کہ جب تک جے آئی ٹی کسی حتمی نتیجے پر پہنچ نہیں جاتی اور اس کا نتیجہ سامنے نہیں آ جاتا اس وقت تک الزام تراشیوں اور قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے، معاشرے میں پہلے ہی عدم رواداری کی فضا ہے، اس میں مزید اضافہ کسی طرح بھی ملک و قوم کے لئے سود مند نہیں۔