پولیس لائن اسلام آباد میں تعینات خواتین اہلکاروں پر کیا گزری؟

پولیس لائن اسلام آباد میں تعینات خواتین اہلکاروں پر کیا گزری؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں تعینات خواتین پولیس اہلکاروں کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو انصاف برائے ’’حوا کی بیٹی‘‘ کے عنوان سے خط بھجوا یا گیا ہے جس میں پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں ڈیوٹی سرانجام دینے والی لیڈیز پولیس افسروں اور اہلکاروں نے وہاں موجود افسروں، ریڈروں اور آپریٹروں پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے ہیں۔پولیس لائن ہیڈ کوارٹر میں تعینات خواتین پولیس ملازمین کے اس ’’بے نامی خط‘‘ پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے۔ ایس پی ہیڈ کوارٹر سمیرا اعظم اور زیر تربیت اے ایس پی عائشہ گل کو اسلام آباد پولیس کی تمام خواتین اہلکاروں کا انفرادی انٹرویو کرنے اور انہیں اعتماد میں لے کر سنگین نوعیت کے الزامات کی تصدیق کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ ان تینوں اہلکاروں کے بارے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ خواتین سے گفتگو کرتے ہوئے ذومعنی الفاظ استعمال کرنے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ قائم مقام آئی جی وقار چوہان نے واضح کیا ہے کہ اسلام آباد میں تعینات لیڈی پولیس کی تمام اہلکار ہمارے لئے ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی طرح قابل احترام ہیں۔ ان کی طرف بری نیت کی نظر سے دیکھنے والے اہلکاروں کو نہ صرف نوکری سے نکال دیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی درج کئے جائیں گے۔ تاہم سنگین الزامات کی تحقیقات میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ آئی جی کو ایک ’’بے نامی خط‘‘ موصول ہوا تھا جس پر انہوں نے ڈی آئی جی اور اے آئی جی ہیڈ کوارٹر سے ایک ہفتے میں تحریری جواب طلب کیا تھا۔ 29 مارچ کو آئی جی آفس کو آنے والی بے نامی درخواست میں چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، وزیر داخلہ، چیف کمشنر کو بھی متوجہ کیا گیا ہے۔ اجتماعی طور پر لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ انتہائی مودبانہ عرض ہے کہ ہم لڑکیاں پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں مجبوریوں کے بعد دنیا کی ستائی پولیس محکمہ جوائن کیا اور اپنے گھر اور بہن بھائی ماں باپ کو چھوڑ دیا۔ محکمہ میں بھرتی ہونے کے بعد ہم ماں باپ کی بجائے ہماری عزت کا خیال رکھنا سینئر افسران کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں کام الٹا ہے۔ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کئی کتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیس لائن کا نظام ہی خراب ہے، ڈی ایس پی سے لے کر ایس ایس پی تک جب بھی کوئی پیشی ہو تو ریڈر اور آپریٹر ہمیں ایک مخصوص جگہ بتاتے ہیں کہ یہاں آ جاؤ، ہم آپ کا کام بغیر پیشی کے کروا دیں گے اور ہمیں مجبوراً کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے اہم دفاتر میں ڈی ایس پی، اس کے ریڈر اور آپریٹروں نے الگ الگ کمرے تیار کر رکھے ہیں جہاں پر ہمارے اعمال ناموں کی سماعت اپنی عزت دے کر ہوتی ہے۔ یہی حال اوپر تمام ریڈروں اور آپریٹروں کا ہے۔ اسی لئے یہ لوگ الگ کمرے تلاش کرتے ہیں۔ جناب خدا کا خوف کھائیں، آپ کی بیٹیاں بھی ہوں گی، ہماری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے، ہماری کچھ لڑکیاں جن کی عزت سے ایک اہم آفس کے ڈی ایس پی اور کچھ ریڈر اور آپریٹر کھیلتے رہے ہیں ان کی تصاویر اور ویڈیوز ہمارے پاس محفوظ ہیں جو صرف چیف جسٹس صاحبان کو ہی وٹس ایپ کی جائیں گی۔ آپ سے التماس ہے کہ کالی اور گندی بھیڑوں کو لائن سے نکالیں اور ہمیں انصاف دیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے ورنہ ہمیں مجبوراً میڈیا کا سہارا لینا پڑے گا جو بعد میں محکمہ کی بدنامی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اپنے نام صرف چیف جسٹس صاحبان کو ہی ارسال کر رہی ہیں۔ آپ سے التماس ہے کہ آئندہ کے لئے آنے والی ہماری نئی بہنوں کی عزت بچانے کے لئے صرف لیڈیز کے لئے ایک سپیشل افسر تعینات کی جائے جس کی ریڈر لیڈی ہو۔
خط میں اس معاملے پر چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی ہے۔ یہ خط چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، وزیرداخلہ، چیف کمشنر اسلام آباد، آئی جی پولیس اسلام آباد کو بھی بھیجا گیا ہے۔ پولیس خواتین اہلکاروں نے خط میں تحریر کیا ہے کہ ہم لڑکیاں پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں۔ لاکھوں مجبوریوں کی وجہ سے پولیس کا محکمہ جوائن کیا، گھر میں ماں باپ کے بعد ملازمت میں سینئر افسروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری عزت کا خیال رکھیں۔ یہاں ہماری عزتوں سے کھیلا جاتا ہے۔ ڈی ایس پی سے لے کر ایس پی تک جب بھی کوئی پیشی ہو تو ریڈر اور آپریٹر ہمیں ایک مخصوص جگہ بتاتے ہیں کہ یہاں آ جاؤ ہم بغیر پیشی کے آپ کا کام کروا دیں گے اور ہمیں مجبوراً جانا پڑتا ہے۔ ہیڈ کوارٹرز میں ڈی ایس پی، ایس پی، ریڈر اور آپریٹروں نے الگ کمرے تیار کروا رکھے ہیں جہاں پر ہماری پیشی کی سماعت اپنی عزت دے کر ہوتی ہے۔ یہی حال اوپر آپریٹروں اور ریڈروں کا ہے اس لئے یہ الگ کمرے تلاش کرتے ہیں۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لڑکیاں جن کی عزت سے ایس پی ہیڈ کوارٹرز اور کچھ ریڈر کھیلتے رہے ہیں، ان کی ویڈیوز اور تصاویر ہمارے پاس محفوظ ہیں ۔ خط میں چیف جسٹس سے التماس کی گئی ہے کہ اس معاملے پر از خود نوٹس لیں۔ اس نامعلوم درخواست پر آئی جی پولیس نے اے آئی جی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اے آئی جی آپریشن اور ایس پی او ٹی نے پولیس لائن میں دربار کیا اور لیڈی پولیس اہلکاروں سے پوچھ گچھ کی۔ تین اہلکاروں کے نام سامنے آنے پر انہیں معطل کر دیا گیا۔اسلام آباد کی لیڈی پولیس اہلکاروں کی یہ شکایت نہایت سنگین اور افسوس ناک ہے۔ وزارت داخلہ کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہئے اور اعلیٰ ترین سطح کی انکوائری کمیٹی بنا کر تحقیقات کرنی چاہئے اور اس میں یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ کسی خاتون اہلکار کو ڈرایا یا دھمکایا نہ جائے کہ وہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کے خلاف حقائق پر مبنی بات نہ کرے۔ اس معاملے کی مکمل انکوائری کے بعد ذمہ داران کا تعین کرکے ان کے خلاف ملکی قانون کے تحت کارروائی کی جائے اور کسی مرد کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو کوئی رعایت نہ دی جائے۔ پولیس قانون نافذ کرنے والی ڈسپلن فورس ہے اس میں اگر اس طرح کے حالات ہیں تو ہمارے لئے انتہائی شرم کی بات ہے۔ اس بارے میں پولیس کو بھی ایسے افسروں اور اہلکاروں کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھنا چاہئے۔ پولیس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آنے والی لڑکیاں اس لئے نہیں آتیں کہ اپنی عزت گنوا بیٹھیں۔ یہ معاملہ ہماری قوم کے ہر فرد پر سیاہ داغ ہے۔ اس کو مٹانے کے لئے ہر ذمہ دار سخت ترین سزا کا مستحق ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان بھی اس معاملے میں ان حالات کی شکار قوم کی بچیوں کی بات سنیں اور اس پر وہ ایکشن لیں کہ آئندہ کسی کو اس طرح کی حرکت کرنے کی جرأت نہ ہو۔ حوا کی بیٹی اسلامی مملکت میں بے آسرا نہیں ہو سکتیں۔ ان حالات میں ان بیٹیوں کے ساتھ پوری قوم ہے اور ان کے مجرموں کو سزا ملنے تک قوم مضطرب رہے گی۔

مزید :

ایڈیشن 2 -