وہ وجوہات جو ہُنرمندپاکستانی نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں

وہ وجوہات جو ہُنرمندپاکستانی نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں
وہ وجوہات جو ہُنرمندپاکستانی نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے،مگر ہمارے پڑھے لکھے،باہنر نوجوانوں کی اکثریت پاکستان میں کام کرنے کی بجائے ہمیشہ بیرون ممالک جانے کو ترجیح دیتی چلی آرہی ہے۔برین ڈرین کیا ہے،معاشی و معاشرتی ناہمواری، انسانیت کی قدر و قیمت میں کمی کے سبب قابل لوگوں کا ترکِ وطن ہی برین ڈرین ہوتاہے۔ملک چھوڑنے کا رُجحان اب خطرناک حدوں کو چُھونے لگاہے۔گزشتہ ایک دہائی میں صرف صحت،تدریس اور انجینئرنگ کے شعبوں سے متعلقہ 60ہزارسے زائداعلی تعلیم یافتہ پاکستانیوں نے بہترروزگار اوراچھے مستقبل کی خاطر وطن کو خیربادکہا۔جن میں سے 67فیصد انجینئرز ، 20فیصدڈاکٹرز او ر 12فیصد ٹیچرزشامل تھے۔
ہمارا برین ڈرین جس تیزی سے غیرممالک میں منتقل ہورہاہے۔اس کے مذکورہ اعدادوشمارکو دیکھ کر تشویش واِضطراب ہی جنم نہیں لے رہی بلکہ اندیشوں اورخدشات کے پہاڑ سر اُٹھارہے ہیں۔ملک کا ذہین ترین افرادسے مسلسل محروم ہوتے جانا،کسی بہت بڑے المیے سے کم نہیں ہے،کیونکہ عقل ودانش سے محرومی معاشرے کو بانجھ کردیتی ہے۔
فکرواندیشہ کی بات تو یہ ہے کہ کیا حکمران اورکیااپوزیشن سب کچھ آنکھوں سے ہوتا دیکھ رہے ہیں اوروہ بے حس وبے پرواہ ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ انہیں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے،صرف جلسہ گاہوں کو بھرنے اورزِندہ بادکے نعرے لگانے والے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔انہیں اس سے سروکارنہیں کہ ملک کا مستقبل کیوں پاکستان سے مایوس ہوکر باہرجانے پر مجبورہے۔نان ایشوزکی سیاست نے حقیقی مسائل کو پس پشت کو دھکیل دیاہے۔کسے فرصت ہے کو وہ سوچ سکے کہ چپڑاسی کی ایک آسامی کے لیے دو،دو ہزاراَیم اے پاس نوجوانوں کی درخواستیں کیوں موصول ہوتی ہیں؟کون غورکرے گا کہ ہرروزتین ہزارلوگ اورہرسال دس لاکھ افراد کیوں ملک چھوڑجاتے ہیں؟جب قابلیت اوراہلیت کے ہوتے ہوئے نوجوان صرف اس لیے ملازمت سے محروم رہ جاتے ہوں کہ اُن کے پاس کسی وزیر،یاوَڈیرے کی سفارش کے ساتھ رشوت دینے کے لیے لاکھوں روپے نہیں ہوتے،جنہیں وہ متعلقہ اداروں کے اہل کاروں کو بطورنذرانہ پیش کرسکیں۔جب ایک ایک آسامی کا نرخ مقررہے توبے یارومددگارنوجوان نوکری کا خواب بھی نہیں دیکھ پاتا۔حرام خوراَفسروں کا جہنم بھرنے والاہی ملازمت کا اہل ٹھہرتاہے۔اگر کوئی خوش نصیب اپنی قابلیت اوردیانت کے بل بوتے پر نوکری حاصل کربھی لے تو بھتہ خورمافیا اورکرپٹ افسروں کے ناجائز اَحکامات کی تعمیل نہ کرنے پر دفترسے باہرکردیاجاتاہے۔ہائرایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) نے ملک بھرمیں 188 یونیورسٹیوں کا جال پھیلایا دیاہے اور اگلے دس سالوں تک یونیورسٹیوں کی تعدادکو تین سو تک کر ناچاہتاہے۔ تاکہ ہر طالب علم کو گھر کے نزدیک اپنے ضلع میں معیاری تعلیم ملنے لگے ۔اگر دیانت داری سے عمل کیاجائے تویہ بہت ہی اعلیٰ سوچ اورشاندار منصوبہ ہے،مگر اِس تعلیمی منصوبہ سے حاصل ہونے والے فوائدکو قوم وملک کے لیے کارآمدبنانا اِس سے بھی بڑا ٹاسک ہے اورپیپروَرک سے آگے اس ٹاسک کو حاصل کرنے کے لیے کوئی پُرعزم نظر نہیں آتا۔
صرف تعلیمی ادا روں کے بہترین نتائج نوجوانوں کو ملک چھوڑنے سے روک نہیں سکتے ۔صوبہ پنجاب ہی کو لیجیے۔یہاںکے سرکاری میڈیکل کالجوں سے ہرسال 2300جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجزکے ذریعے 800 نوجوان ڈاکٹرز بن کر نکلتے ہیں۔جن میں سے تین سو سے زائد ڈاکٹرزپاکستان سے باہرچلے جاتے ہیں۔پے بیک نہ ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچارہوناپڑتاہے،کیونکہ ایک ڈاکٹر اور انجینئر کی تعلیم پر ملک کے تیس سے چالیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔جو ڈاکٹر اوراِنجینئر باہرنہیں جا سکتے ،اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سی ایس ایس کرکے دیگر اہم ملازمتوں کا رُخ کرلیں۔
پاکستان نوجوانوں کی شرح کے حوالے سے دنیامیں تیسرے نمبرپر ہے۔ہمارے پاس 44فی صدنوجوان ہیں۔اعلیٰ ذہانت اوربہترین تعلیم والی نسل ہمارے پاس موجودہے۔ٹیلنٹ،صلاحیت،ذہانت کسی بھی معاملے میں ہمارے نوجوان کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے پیچھے نہیں ہیں۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ سے زیادہ طلبا و طالبات گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگراموں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہر سال تقریباً پانچ لاکھ نوجوان ڈگری لیتے ہیں۔
اہلیت ،قابلیت اوراعلیٰ تعلیم کے ہوتے ہوئے نوجوانوں کا ملک سے باہرچلاجاناپوری قوم کے لیے لمحہ¿ فکریہ ہے۔خدمات کا معقول معاوضہ نہ ملنا،جان ومال کاعدم تحفظ،سفارش کلچر،میرٹ کا فقدان،رشوت اوراقرباپروری اورلگاتارغیریقینی کی صورت حال برقراررہنا،یہ وہ بنیادی عوامل ہیں کہ جنہوں نے نوجوانوں کے دل ودماغ میں مایوسی کی جڑیں گاڑرکھی ہیں۔غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اِس وقت امریکا میں 13ہزار چار سو، برطانیہ میں 9ہزار،آسٹریلیا میں 3 ہزار اور مشرق وسطیٰ میں ساڑھے آٹھ ہزار پاکستانی ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں۔یہ توڈاکٹروں کی غیرممالک میں خدمات ہیں۔دیگرتمام اہم شعبوں میں پاکستانیوں کے پیشہ وارانہ کردارکا تناسب بھی کم اہمیت کا حامل نہیںہے،جبکہ پاکستانی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداداِس کے علاوہ ہے۔اگر پاکستان کے ان فرزندوں کو اُن کا ملک اُن کی خدمات کا معقول صلہ اوراُن کی جان ومال کی سلامتی کو یقینی بنانے،اُن کے اعتمادکو بحال کرنے اوراُن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے ٹھوس اورعملی اقدامات کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے یہ بیٹے اپنے پیارے وطن میں نہ لوٹ آئیں۔

..

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -