گھریلو ملازم بچے کس سے سوال کریں ؟
پاکستان میں روز بروز بڑھتی مہنگائی کے باعث غربت بڑھتی جارہی ہے، گھر کا خرچ برداشت کرنا اب واحد کفیل پر بوجھ بن چکا ہے جس کے باعث کم عمر بچوں کو بھی گھر کا خرچ چلانے کیلئے کام کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں والدین چند روپوں کی خاطر اپنے جگر گوشوں کو دوسروں کے آسرے پر چھوڑنے پر مجبور ہیں لیکن یہ مجبوریاں ان بچوں کی زندگی بھی برباد کردیتی ہیں۔ دوسرے بچوں کی طرح غریب کے بچے بھی کھیل کود کرنا چاہتے ہیں لیکن گھریلو مجبوریوں کے باعث یہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ہردم محنت کرتے اور دوسروں کے طعنے سنتے یہ بچے اپنے ہم عمر بچوں کو سکول جاتے دیکھتے ہیں تو ان پر کیا گزرتی ہوگی، یہ صرف صاحبِ دل افراد ہی سمجھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں گھریلو ملازمین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس کو اگر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔ ایک بچہ میں نے شاپنگ مال میں دیکھا جو چائے کے ہوٹل پر کام کرتا تھا ۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے کسی دکاندار کو چائے دینے جارہا تھا کہ اچانک ایک لڑکی سے اس کی ٹکر ہوئی اور چائے اس بچے کے جسم پر گرگئی جس سے وہ بری طرح جھلس گیا، لیکن اس عورت نے ہمدردی کے دو بول بولے، چند روپے بچے کے ہاتھ میں دیے اور چلتی بنی۔ سوال یہ ہے کہ ان تھوڑے سے پیسوں سے اس بچے کا علاج کیونکر ممکن ہوا ہوگا، کیا وہ بچہ اپنے زخموں پر مرہم لگوانے کیلئے ہسپتال گیا بھی ہوگا یا ان پیسوں سے پیٹ کا جہنم بھرلیا ہوگا۔
ہمارے ہاں آئے روز چائلڈ لیبر کے خلاف آوازیں بلند ہوتی ہیں لیکن کیا اس کے خلاف آواز بلند کرنے والے خود اپنے ہی نعروں پر عمل بھی کرتے ہیں؟ ۔جس کے پاس چار پیسے ہیں وہ ان معصوموں کو ان کی مجبوریوں کے عوض خرید لیتا ہے، میرے اپنے کالج میں ایسا ہی ہے ، وہ معلمات جو اتنے بچوں کو تعلیم کی روشنی سے آراستہ کرتی ہیں وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ان معصوم بچوں کو ملازمت پر رکھ لیتی ہیں ۔ لیکن انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ علم جس کی روشنی وہ دنیا بھر میں پھیلا رہی ہیں خود ان کے گھر میں کام کرنے والے بچے اس روشنی سے محروم ہورہے ہیں۔
مہنگائی اور بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے غریب والدین کیلئے سب کو پالنا ممکن نہیں ہوتا جس کے باعث وہ ان معصوموں کو دوسروں کے گھروں میں چھوڑ دیتے ہیں ۔ لیکن ان گھروں میں ان بچوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، اس بارے میں بہت کم سوچا جاتا ہے۔ 4 سے پانچ ہزار روپے ماہانہ کے عوض مالکان ان بچوں سے صبح سے شام تک کام کرواتے ہیں اور ذرا ذرا سی غلطی پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔بعض ظالم لوگ تو اتنا برا تشدد کرتے ہیں کہ ان کی جان ہی لے لیتے ہیں۔ جانوروں کو تو پھر بھی آرام کا موقع ملتا ہے، کھانے کو چارہ ، پینے کو پانی ملتا ہے ، موسم کے حساب سے سرد و گرم جگہ ملتی ہے، مگر ان ننھے ملازمین کو صرف کھانے کیلئے دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی یا بچا کچھا کھانا ہی نصیب ہوتا ہے۔ بات بات پر جھڑکیاں، مار پیٹ، گالم گلوچ کا ان کو ہر وقت سامنا رہتا ہے، یہ کام کرنے والے بچے اور بچیاں ان امیروں اور ان کی اولاد ، رشتے داروں، دوستوں، نوکروں اور غنڈوں کے ہاتھوں عام طور پر جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ برسوں انہیں ماں باپ سے ملنے نہیں دیا جاتا، اگر وہ آئیں بھی تو انہیں جھڑک کر بھگا دیا جاتا ہے اور یہ ملازم بچے انسانی غلامی کی بدترین مثال بن جاتے ہیں۔
ایک چھوٹی بچی جس کی عمر تقریباً دس برس ہے ایک گھر میں ملازمت کرتی ہے جب میں نے اس بچی سے پوچھا کہ اس کے مالک اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں تو بچی نے جواب دیا کہ مالکن کے بیٹے کی دودھ کی بوتل اچھے سے نہیں دھوتی تو مالکن بہت مارتی ہے۔ اگر کوئی برتن غلطی سے ٹوٹ جائے تو بہت تشدد کرتی ہے ۔ کیوں ہم مسلمانوں کے دلوں سے رحم ختم ہوتا جارہا ہے۔ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ اپنے چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں پر رحم کرو لیکن اس پرفتن دور میں مسلمانوں کے دلوں سے یہ دونوں چیزیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2004 میں پاکستان میں دو لاکھ 64ہزار بچے گھریلو ملازمت کرتے تھے جبکہ ایک حالیہ بیان سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دس سال کی عمر تک کے بچے جو ملازمت کرتے ہیں انکی تعداد تقریباً 60 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ گھریلو ملازم بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد حکومتوں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔