اور اب گیس کی قیمتوں میں اضافے کی نوید
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی(اوگرا) کی چیئرپرسن عظمیٰ عادل نے کہا ہے کہ یکم جولائی سے گیس 75 سے80فیصد تک مہنگی ہو سکتی ہے، سردیوں میں اوور بلنگ کی وجہ چوتھا سلیب ریٹ اور پریشر فیکٹر تھا تاہم اوور بلنگ کے ذمہ داروں کا تعین وزیراعظم کی بنائی ہوئی کمیٹی کرے گی۔سوئی ناردرن کے غیر ضروری اخراجات کو نہیں مانا جائے گا،اُن کا کہنا تھا گیس کی قیمتیں دو سال سے نہیں بڑھیں،جس کی وجہ سے قیمت خرید اور فروخت میں فرق بہت بڑھ گیا ہے۔
ابھی وہ لاکھوں لوگ اس ماتم سے فارغ نہیں ہوئے جو اُنہیں ہزاروں روپے کے زائد بل ملنے پر کرنا پڑا تھا، گھروں میں چولہا، گیزر اور کسی حد تک ہیٹر جلانے والوں کو ہوشربا بِل موصول ہوئے تو ہا ہا کار مچ گئی تھی، معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں آیا اور اُن کے بنائے ہوئے شکایات سیل میں لوگوں نے براہِ راست شکایات بھیجیں تو انہوں نے معاملے کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنا دی۔ البتہ ہر کسی کو بِل جمع کرانا پڑا، اب وزیر پٹرولیم زیادہ وصول شدہ رقم واپس کرنے یا اگلے بلوں میں ایڈجسٹ کرنے کی نوید سُنا رہے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ اس عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے اور تین ارب روپے واپس بھی کئے گئے ہیں،لیکن ابھی مزید چند ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، تب کہیں جا کر یہ عمل مکمل ہو گا۔
اوور بلنگ کی وجہ جو بھی رہی ہو، اور اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو، لیکن ہزاروں روپے کے بلوں نے یکایک جو طوفان مچایا اس کا شور اب تک نہیں تھما، اس کی وجہ چوتھا سلیب تھایا پریشر کی کمی،اس کے ذمہ داران کا تعین تو ہو جائے گا،لیکن گیس کے صارفین جس امتحان سے گزر گئے اور انہیں گھر کی اشیا بیچ کر جس طرح بل جمع کرانے پڑے وہ لاکھوں لوگوں کے لئے ایک بہت ہی تلخ تجربہ تھا، اللہ کرے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اُنہیں پھر ایسی صورتِ حال سے نہ گزرنا پڑے تاہم80فیصد تک قیمتیں بڑھیں گی اور پھر سلیب سسٹم بھی لاگو ہو گا تو قیمتوں میں معتدبہ اضافہ ہو جائے گا اور یہ تو جولائی کے بِل آنے پر ہی پتہ چلے گا کہ صارفین کے ہوش و حواس کے پرزے کس طرح اڑتے ہیں۔
ابھی گزشتہ روز ہی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کے بعد بھی قیمتیں نہیں بڑھیں گی، چند چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جن سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا۔ اُن کی وزارت کا مستقبل تو غیر یقینی ہے اور حکومت کی سختی سے تردیدوں کے باوجود بھی یہ کہنے والے اپنے موقف پر قائم ہیں کہ انہیں وزارت سے ہٹائے جانے کا امکان ہے،ہمارے خیال میں اُنہیں کم از کم اِس وقت تک تو وزیر رہنا چاہئے، جب وہ اپنے دعوؤں کے برعکس قیمتوں میں اضافے کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کریں اور عوام کی چیخیں اپنے کانوں سے سنیں اور یہ وقت زیادہ دور نہیں ،کیونکہ جو اقدام وہ کر چکے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرضے کی پہلی قسط سے پہلے پہلے جو مزید اقدامات کئے جائیں گے اُن سے مہنگائی تو بڑھے گی، پہلے ہی مختلف شہروں میں 10روپے والا نان 12روپے میں فروخت ہونا شروع ہو گیا ہے اور گیس کی قیمت بڑھنے سے پہلے یہ حال ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب 80فیصد تک قیمتیں بڑھ جائیں گی تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور مہنگائی کی وجہ سے عوام کی چیخ پکار کِس کِس ایوان سے ٹکرائے گی۔
اگرچہ وزیر خزانہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے کوئی کڑی شرائط عائد نہیں کیں،لیکن آئی ایم ایف کے حوالے سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے نہ صرف چینی قرضوں کی تفصیلات مانگی ہیں، بلکہ(شاید پہلی مرتبہ) دفاع کے بارے میں بھی معلومات طلب کر لی ہیں، حتیٰ کہ نیو کلیئر پروگرام، جے ایف17تھنڈر طیاروں اور سب میرین کے بارے میں تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ اگر پاکستان ان شرائط پر عمل کرتا ہے تو پھر اس کے آپشن بہت محدود ہو جائیں گے اور سیکیورٹی کی صورتِ حال کی وجہ سے اسے اپنے دفاع کے لئے جو اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں، جن میں جدید طیاروں اور سب میرین کی تیاری بھی شامل ہے حال ہی میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان کے جے ایف17 تھنڈر طیاروں ہی نے بھارتی طیارے گرائے تھے۔ اس واقعہ کے بعد تو ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اپنے فضائی دفاع کو مضبوط بنائے اور اِس سلسلے میں کسی بھی قسم کی پابندی قبول نہ کرے۔اگر آئی ایم ایف نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تو حکومت کو واضح تردید کرنی چاہئے۔
گیس کی قیمتوں میں اضافے کی جو نوید چیئرپرسن اوگرا نے دی ہے اس کے بعد مہنگائی کا ایک نیا طوفان ابھی سے پلنا شروع ہو جائے گا،کیونکہ بیس دن بعد رمضان المبارک کی آمد آمد ہے،اس مبارک مہینے کی آمد سے پہلے تاجروں کی جانب سے اشیا مہنگی کرنے کی جو مستحکم روایت موجود ہے اُس پر عمل شروع ہو چکا ہے اور تمام ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں تازہ اضافہ ہوشربا ہے۔ گوشت، مرغی کے گوشت اور سبزیوں، دالوں، دودھ دہی وغیرہ کی قیمتوں میں جو اضافہ رمضان سے پہلے اور اِسی دوران ہو جائے گا ابھی اس کے اثرات باقی ہوں گے کہ عیدالفطر پر بھی مہنگائی کی ایک بڑی لہر آئے گی۔جب جولائی میں گیس کی قیمتیں بڑھ کر تقریباً دوگنا ہو جائیں گی تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس سے لوگوں پر کِس حد تک اثرات مرتب ہوں گے۔چیئرمین اوگرا کا کہنا ہے کہ دو سال سے گیس کی قیمتیں نہیں بڑھیں حالانکہ سلیب سسٹم بھی تو اضافے ہی کی ایک شکل ہے بلکہ براہ راست اضافے کی نسبت اس طرح زیادہ اضافہ کر دیا گیا۔
گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو صارفین تو براہِ راست متاثر ہوں گے،لیکن جہاں جہاں گیس صنعتی مقاصد اور اشیاء صرف کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے ایسی سب اشیا بھی درجہ بدرجہ مہنگی ہو جائیں گی اور اس کا اثر بھی اُن صارفین پر پڑے گا، جو ان اشیا کی خریداری کریں گے، کیونکہ کوئی صنعتکار اپنی مصنوعات مہنگی تیار کر کے سستی تو نہیں بیچ سکتا، اگر حکومت بھی جس کی سوچ بہرحال تاجرانہ نہیں ہونی چاہئے، خرید اور فروخت کی قیمت کو مدِ نظر رکھتی ہے تو صنعتکار اور تاجر بدرج�ۂ اولیٰ ایسے کرتے ہیں اگر وہ مہنگی گیس سے مہنگی اشیا بنائیں گے تو بالآخر وہ مارکیٹ میں بھی گراں قدر ہو جائیں گی اور صرف اُنہی صارفین کی دسترس میں رہ جائیں گی، جو انہیں خریدنے کی سکت رکھتے ہوں گے۔ اِس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ گیس کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کا ایک پورا چکر چلے گا، جو مکمل ہو گا تو پتہ چلے گا اس کے کشتگان میں کون کون شامل ہے،اِس لئے عوام الناس آئی ایم ایف کے قرضوں کی فیوض و برکات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔