تردید کے باوجود، وزیر خزانہ اور بیورو کریسی میں تبدیلیوں کی خبریں گردش میں ہیں!
کابینہ اور بیورو کریسی میں تبدیلیوں کے قیافوں کے گرد حکومت گھری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ وفاقی دارالحکومت میں اعلیٰ بیورو کریسی اور بعض وفاقی وزرا کی کارکردگی کے پیش نظر تبدیلیوں کی بات کافی دیر سے چل رہی ہے تاہم وزیراعظم عمران خان کے بعض دیرینہ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کپتان کھیل کے میدان کے تجربہ اور سپرٹ کے مطابق فوری ردعمل سے احتراز کرتے ہیں اس لئے بعض وزارتوں کی ناقص کارکردگی کے باوجود وہ بہتری کی امید پر مزید وقت دے رہے ہیں،لیکن لگتا ہے اب پانی سر سے اوپر ہونے لگا ہے،بڑھتے ہوئے عوامی مسائل اور اپوزیشن کی تنقید میں شدت کے باعث کابینہ اور بیورو کریسی میں اعلیٰ سطحی تبدیلیاں ناگزیر نظر آنے لگی ہیں، حتیٰ کہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو ہٹائے جانے کی افواہیں کئی روز سے سرگرم ہیں، لیکن حکومتی حلقوں کی جانب سے اس کی تردید بھی سامنے آ رہی ہے۔ بلاشبہ کارکردگی کے لحاظ سے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر پر سب سے زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔ ان کی قلیل الوقتی اور وسطی مدت کی معاشی پالیسیوں کے عوام پر زیادہ خوشگوار اثرات نظر نہیں آ رہے، لیکن وہ اس وقت آئی ایم ایف سمیت بعض عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات کے جس مرحلے پر ہیں انہیں شاید فوری تبدیل کرنا ممکن نہ ہو۔ تاہم وفاقی وزیر اسد عمر کے بعد سب سے زیادہ ہدف تنقید چیئرمین ایف بی آر نظر آ رہے ہیں جو ایک منجھے ہوئے ڈی ایم جی بیورو کریٹ ہیں، جنہیں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا بہت اعتماد حاصل تھا اور وہ ان کی ٹیم کے صف اول کے کھلاڑیوں میں شامل تھے، تاہم ان کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے شاید ان کی اس بیک گراؤنڈ کی بنا پر ہی چیئرمین ایف بی آر کے عہدہ پر تعیناتی ہوئی،لیکن وہ ایف بی آر کے اعلیٰ ترین افسروں سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہے۔ وزارت پیٹرولیم میں بھی تبدیلیوں کی اطلاعات چل رہی ہیں، جبکہ پاور سیکٹر کا ملبہ بھی وزارت پیٹرولیم کے سر پڑا ہوا ہے۔تبدیلیوں کے اس امکانی موسم میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے بالآخر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا ہے کہ ان کے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کے لئے معاملات طے پا گئے ہیں۔ یہ ایک اچھی خبر ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والے اربوں ڈالر کے اثرات عام آدمی تک بھی پہنچ پاتے ہیں کہ نہیں، کیونکہ ان اداروں کی پیشگی شرائط کے تحت اٹھائے جانے والے اقدامات سے عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی جا رہی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر حکومتی حلقوں کے اندر بھی تنقید جاری ہے۔ معیشت کو تیز تر رکھنے میں مثبت تاثر کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے،لیکن یہاں بعض حکومتی وزرا اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے باعث خود ہی اکانومی کے منفی تاثر کو اُجاگر کرنے میں پیش پیش ہیں۔ حکومت کو اپنی ناتجربہ کاری کے اضافی نمبر مل رہے تھے لیکن اب عوام حکومت کو اِس ضمن میں مزید اضافی نمبر دینے کو تیار نظر نہیں آ رہے، کیونکہ یہ شاید پہلی ایسی حکومت ہے جس کے قیام کے آٹھ ماہ بعد یہ چل چلاؤ کی افواہیں گردش کرنے لگی ہیں۔ انہی افواہوں کے تناظر میں اسلامی صدارتی نظام جیسے بعض ماورائے آئین تجزیوں کے امکانات پر بھی بحث ہونے لگی ہے۔ ایک طرف اپوزیشن رہنما شہباز شریف اور ان کے اہل خان کے گرد گھیرا تنگ ہوتے نظر آ رہا ہے تو دوسری جانب ساری اپوزیشن جماعتیں احتساب کو سیاسی اور انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کا سارا ملبہ حکومت پر ڈال رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے نیب کی کارروائیوں کو حکومت کا سیاسی انتقام قرار دینے کی مہم اس قدر کامیابی سے چلائی ہے کہ وزیراعظم عمران کو خود اس کا دفاع کرنا پڑا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں اس حوالے سے ایک فرانسیسی ماہر معیشت و دانشور کا قول بیان کیا۔ اپوزیشن رہنما شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف احتساب کی تازہ کارروائیوں سے دارالحکومت میں مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ شریف خاندان کو سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو جو ڈھیل دی گئی تھی وہ ڈیل میں شاید تبدیل نہیں ہو پائی۔ شاید سابق وزیراعظم نواز شریف ڈیل کے حق میں ہیں نہ وہ اسے اپنے خاندان اور جماعت کے فائدہ میں تصور کرتے ہیں،لیکن پاکستان میں مسلسل بسنے والے اور گھمبیر مسائل میں گھرے عوام اور دیوار سے لگائے جانے والی تمام اپوزیشن ایک ٹریپ پر لایا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت اس ٹریپ سے باہر نکل کر عوامی مسائل کے حل کے لئے اپنے اصلاحاتی اور انقلابی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتی ہے یا پھر اس ٹریپ میں مزید دھنستی چلی جاتی ہے۔حالیہ ملکی سیاست کے پیش نظر قومی اسمبلی کا اہم اجلاس 12اپریل کو منعقد ہونا تھا،لیکن اسے منسوخ کر دیا گیا۔ خیال ہے کہ شاید حکومت اس عرصہ میں کوئی آرڈیننس لانے پر غور کر رہی ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر حکومت اور اپوزیشن بنچوں میں صلح کے لئے پیش پیش رہے ہیں،لیکن انہیں کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملتی نظر آ رہی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کی صلح جوئی کی کوششوں کو حکومتی بنچ بھی کوئی تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ اِس ضمن میں آئندہ جب بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہو گا اس میں خوب دھما چوکڑی مچے گی۔ رواں ہفتے امام کعبہ کا دارالحکومت کا دورہ قابلِ ذکر تھا۔ ان کی صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اُمہ کے اتحاد کے حوالے سے اہم ملاقاتیں ہئیں تاہم بعض سیکیورٹی اطلاعات کے پیش نظر ان کا دورہ پارلیمینٹ منسوخ کرنا پڑا تاہم انہوں نے سپیکر ہاؤس میں جمعہ کی نماز کی امامت کرائی۔ امام کعبہ کا دورۂ پاکستان وزیراعظم عمران خان کے دورۂ ایران سے قبل اُمہ کے اتحاد کے حوالے سے اہم ہو سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اٹھارویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات کی حامل ہے اِس ضمن میں حکومت بہت سے ایسے اقدامات کی خواہش مند ہے جس سے بعض شعبوں بالخصوص یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے مرکز کا کردار اہم ہو۔ وزیراعظم عمران خان کا ہندوستان میں نریندر مودی کی جیت کے حوالے سے بیان دارالحکومت میں زیر بحث سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت سے آئے ہوئے ایک سکھ صحافی چیخل جی کا کہنا ہے کہ پچھلے انتخابات میں مودی مخالف جماعتیں منقسم تھیں، لیکن اس بار صورتِ حال مختلف ہے، ان کے خیال میں مودی کی کم از کم100نشستیں کم ہوں گی، زیادہ امکان ہے کہ اس بار نریندر مودی حکومت نہیں بنا پائے گا۔ اگر اس کی حکومت بنی بھی تو یہ ایک کمزور حکومت ہو گی،کیونکہ اس وقت ہندوستان میں تمام اقلیتیں مودی کے خلاف متحد ہیں، جبکہ اپوزیشن کی بہت سی جماعتیں مل کر مودی کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی برسر اقتدار آئے مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہئے۔ پاکستان سکھوں کے مذہبی مقام کرتارپور کا بارڈر کھول کر پہل کر چکا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ہندوستان اس کا کیا جواب دیتا ہے۔