’مداری تیرا ای کمال ای‘

’مداری تیرا ای کمال ای‘
’مداری تیرا ای کمال ای‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں سوچتا ہوں کسی چوک چوراہے،راستے میں مجمع لگانے والا مداری کتنا بڑا فن کار ہوتا ہے کہ ہر آتے جاتے کا التفات پاتا ہے جب وہ کہیں جمع لگانے کے لئے بیٹھتا ہے تو اس وقت اسکے پاس کوئی ایک شخص بھی نہیں ہوتا وہ اپنا سامان رکھتا ہے اور اپنے فن خطابت سے ایک دو تین پھر کئی افراد کو جمع کر لیتا ہے لوگ اسکی بات پورے انہماک سے سن رہے ہوتے ہیں بلکہ کوئی پلک نہیں جھپکتا کہ ایسا نہ ہو وہ کسی منظر سے محروم رہ جائے کسی مداری کے پاس بکری تو کسی کے پاس بندریا کسی کے پا س سانپ تو کسی کے پاس دیگر جانور اور ادویات ہوتی ہیں ہم کبھی کسی سے غصے میں کہہ اٹھتے ہیں کہ تم نے جو سانپ نکالنا ہے نکال لو لیکن مداری والا سچ مچ کا سانپ نکال لیتا ہے بلکہ وہ اسے ہار کی طرح گلے میں ڈال لیتا ہے جیسے کوئی محبوب کے گلے میں بانہیں ڈالتا ہو ہم اکثر کسی کی بے وفائی پر کہتے ہیں کہ میں نے سانپ کو دودھ پلایا لیکن مداری والا واقعی سانپ کو دودھ پلاتا ہے اور سانپ اس دودھ کا حق بھی ادا کرتا ہے میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ ہم ایسے کالم نگاروں سے تو وہ مداری بہتر ہے جو کسی ضروری کام سے جانے والے کو بھی کھڑا کر لیتا ہے اور کسی مصروف آدمی کو بھی کتنا وقت پاس بٹھا لیتا ہے اور ہم کب سے لکھ لکھ کر اخبارات کے صفحات کالے کر تے جاتے ہیں اور کسی کی نگاہ ملتفت بھی نہیں پاتے مداری والے سے مجھے خیال آتا ہے ہمارے سیاستدان بھی تو مداری والے ہیں دیکھئے ناں!سیاستدانوں اور مداریوں میں کتنی قدریں مشترک ہوتی ہیں مداری والا بھی اپنی باتوں کے طلسم سے لوگ جمع کر لیتا ہے اور سیاستدان بھی کیسی کیسی لچھے دار باتوں سے اپنے ووٹرز کی توجہ پاتا ہے وہ دعووں کے ایسے دلکش اور وعدوں کے ایسے دلفریب جلوے دکھاتا ہے کہ ووٹرز کی آنکھوں میں دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر رقص کرنے لگتی ہے کوئی ووٹرسیاستدان کی طرف سے دلائی گئی یقین دہانی سے اپنے بچوں کو خیالوں میں کسی اچھی نوکری پر جاتا دیکھتا ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے وہ اپنے بچوں کے مستقبل پر سیاستدان کے وعدوں کی مہر ثبت کرتا ہے اور فاتحانہ ہنسی ہنستا ہے اور دکھ کے سارے لمحے بھول جاتا ہے بعض ووٹرز زندگی بھر خستہ اور شکستہ رستوں پر چل کر اپنے گاؤں تک پہنچتے ہیں انہیں شہر صرف اسلئے اچھا لگتا ہے کہ شہر کی سڑکیں پختہ اور صاف ستھری ہوتی ہیں دیہاتوں کے باسی ایسی آئینہ سڑکوں کے لئے ترستے ہیں کہ کاش انکے گاؤں کو جانے والے رستے بھی ایسے پختہ ہوں کہ انہیں کھیتوں سے منڈیوں تک غلہ لے جانے میں دشواری نہ ہو مریضوں کو ہسپتال۔

طلباء کو سکولز کالجز جانے میں تاخیر نہ ہو نہ بارشوں میں یہ رستے ’نوگو ایریا ز‘بن کر نہ رہ جائیں سیاستدان دیہات کے کچے رستوں کو پختہ سڑکوں میں بدلنے کے وعدے کرتا ہے گاؤں بھر کے لوگ اپنے ووٹ اسکی جھولی میں ڈال دیتے ہیں بعض ووٹرز اپنی کاروباری مشکلات سے زچ ہو کررہ جاتے ہیں انہیں اپنے شہر میں کاروباری معاملے میں جو مسائل درپیش ہوتے ہیں وہ اس سے نجات چاہتے ہیں اور سیاستدان اپنی فتح کے بعد اسے تمام تر کاروباری دشواریوں سے نجات کا یقین دلاتا ہے بعض دیہات اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور سیاستدان تمام محرومیوں کا ازالہ اپنی کامیابی سے مشروط کردیتا ہے کچھ علاقوں میں پرائمری سکول ہیں تو وہاں کے لوگ چاہتے ہیں یہ مڈل تک ہوجائیں کچھ ایلیمنٹری سکولز ہائی حصے تک پہنچنا چاہتے ہیں تو کچھ ہائی سکول اپ گریڈہو کر ہائیر سیکنڈری ہونا چاہتے ہیں تاکہ بچے بچیاں دوردراز کے سفر کی صعوبتوں اور مالی مشکلات سے بچ سکیں یہاں بھی سیاسی وعدے کام دکھاتے ہیں۔ کہیں لوگ اپنے علاقوں کی ڈسپنسریوں میں ادویات کے فقدان کا ماتم کرتے ہیں اور بہتر سہولتوں کے متمنی ہوتے ہیں سیاستدان کے وعدوں کا سلسلہ یہاں بھی دراز رہتا ہے اور وہ ووٹوں کی خیرات پانے میں کامیاب ٹھہرتا ہے کہیں لوگ خاندانی جھگڑوں میں جکڑے ہوتے ہیں تو کہیں تھانہ کچہریوں کے معاملات انہیں الجھائے رکھتے ہیں سیاسی علم یہاں بھی چلتا ہے اور سیاستدان ووٹ لے نکلتاہے سیاستدان عوام کے بھاری مینڈیٹ سے کامیا ب ہوتے ہیں لیکن غریب کے بچے پڑھ لکھ کر بھی باپ کے ساتھ مزدوری میں ہاتھ بٹا رہے ہوتے ہیں نہ انہیں وہ نوکریاں ملتی ہیں جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے

یا جسکے وہ اہل ہوتے ہیں نہ ہی وہ دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر پاتے ہیں نہ ہی گاؤں کے کچے رستے پکے ہوتے ہیں نہ ہی کسی کی کاروباری مشکلات کم ہوتی ہیں نہ سکول اپ گریڈ ہوتے ہیں نہ ہسپتال ووٹرز تلملا کے رہ جاتے ہیں اور پانچ سال ایک دوسرے سے یہ کہہ کر غصہ اتارتے ہیں کہ اب اس سیاستدان نے ہم سے ووٹ لینے آنا ہی ہے ناں؟ دیکھیں گے اب یہ کیسے ہم سے ووٹ لیتا ہے۔پانچ سال بعد وہی سیاستدان انہی ووٹرز کو ایسی ایسی کہانیاں سناتا ہے کہ ووٹرز اسے سچ مانتے ہوئے ایک بار پھر اپنا ووٹ ’بادل نخواستہ ہی سہی‘ اسے دے ڈالتے ہیں اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتاہے نہ تو سیاسی وعدے وفا ہوتے ہیں نہ ووٹرز کی محرومیوں کا ازالہ ہوتا ہے میں کہتا ہوں مداری والا کچھ نہ کچھ کرتا ہے تو تماشائیوں سے داد پاتا ہے لیکن یہ سیاسی مداری تو کچھ کرتے بھی نہیں سوائے باتوں کے اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے کے۔ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے مزے سے اپنا عرصہ اقتدار پورا کرتی ہے لیکن کرتی کچھ نہیں اور یہ بھی تو ایک کمال ہی ہے۔ جیسے مداری والا کوئی بات یا کھیل تماشا کرتا ہے اور تماشائیوں سے کہتا ہے کہ ’مداریا تیرا ای کمال ای‘

مزید :

رائے -کالم -