شہباز کی آمد کے بعد کیا؟

شہباز کی آمد کے بعد کیا؟
شہباز کی آمد کے بعد کیا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف محمد شہباز شریف کے حوالے سے امکان یہ تھا کہ ان کی ضمانت منظور ہو جائے گی، انہی سطور میں عرض کر دیا گیا تھا، ہم نے ڈیل جیسے الزام کی وجہ سے ایسا نہیں لکھا تھا، بلکہ نیب کے طریق کار اور عدالتوں کے رجحان کے سبب یہ اندازہ لگایا تھا، کیونکہ عدلیہ کی طرف سے ایک سے زیادہ بار ایسا اظہار ہوا کہ نیب پہلے گرفتار کرتا اور پھر کیس بناتا اور نیب کو حاصل ریمانڈ کے اختیارات کی وجہ سے مدعا علیہ خوار ہوتے ہیں اور جب سال دو کے سال بعد وہ بری ہو جائیں تو ان کی وہ جیل یاترا کسی کھاتے میں نہیں گنی جاتی۔ہم نے کورٹس رپورٹنگ کے دور میں متعدد ایسے مقدمات کے فیصلوں کی رپورٹنگ کی،جس میں عدالتوں نے اگر ایسے ملزموں کو سزا دی جو دوران سماعت ضمانت نہ ہونے پر جیل میں رہے تو ان کی عدالتی ریمانڈ والی مدت کو  سزا کا حصہ بنا دیا، اور ایسا بھی ہوا کہ کئی سال بعد جب اعلیٰ عدالت نے عدم ثبوت پا کر کسی کو بری کیا تو یہ ریمارکس بھی دیئے کہ اس کا کیا قصور کہ اتنا عرصہ مقید رہا، تاہم اس کا کوئی ازالہ نہ ہوا، جہاں تک نیب کا تعلق ہے تو اس کے بنائے گئے ریفرنس نامکمل بھی دائر کئے جاتے اور پھر ضمنی ریفرنسوں کے نام پرایک دو بار مزید ایسا کیا جاتا ہے۔ان ہی حالات کی بنا پر عدلیہ نیب کے طریق کار پر ریمارکس دے چکی ہوئی ہے۔ یہی حالات اور تصور تھا کہ ہم اس امکان کو بہتر جان رہے تھے کہ اعلیٰ عدلیہ اسی پہلو پر دلائل سے مطمئن ہوئی اور ایسا ہی ہوا ہے، لیکن سیاست کا بھلا ہو کہ یہاں ڈیل کی بات شروع ہو گئی ہے،حالانکہ محمد شہباز شریف کے حوالے سے یہ الزام لگتا ہے کہ وہ صاف ذہن اور کھلے انداز میں مفاہمت کے قائل ہیں اور یہ بات بھی منظر عام پر ایک سے زیادہ بار آ چکی کہ ان کو تو وزیراعظم کے عہدے تک کی بھی پیشکش رہی،لیکن انہوں نے بڑے بھائی کو چھوڑ کر عہدہ حاصل کرنا درست نہ جانا۔
اب ان کی ضمانت کے حوالے سے پھر سے قیاس آرائیاں شروع ہیں، اور دور کی کوڑی لائی جا رہی ہے۔اس سلسلے میں کئی دلائل اور کئی جواز بھی پیش کئے جا رہے ہیں،لیکن ایسے حضرات نے اس بار بھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ محمد شہباز شریف نہ  تو بڑے بھائی کا احترام چھوڑیں گے اور نہ ہی (ن) میں سے(ش) نکلے گی، جو حضرات یہ سمجھتے ہیں، وہ اب بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔البتہ جو بات درست ہے وہ یہی ہے کہ ان کے باہر آ جانے سے سیاست کے انداز میں فرق ضرور آئے گا، کہ مسلم لیگ(ن) کی پوزیشن اب ایسی ہو گئی کہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے بیانیے یا اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کے مخالف جماعت میں موجود ہیں تاہم اس کا کریڈٹ اس جماعت کو ضرور جاتا ہے کہ ایسے لوگ ہونے کے باوجود نہ تو کوئی رکن اور عہدیدار ٹوٹا اور نہ ہی کسی نے مخالفانہ بیان دیا، زیادہ سے زیادہ بات ہوئی تو یہ کہ حکومت کو اپوزیشن کے حوالے سے اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنا چاہئے۔


اب ذرا ان حالات پر غور فرما لیں کہ پی ڈی ایم کے صدر اور مسلم لیگ(ن) کے بقول پیپلز پارٹی نے اتحاد کے ساتھ زیادتی کی، ان کی طرف سے تو پیپلزپارٹی اور اے این پی کو فارغ کر دیا گیا ہے کہ اس دوران پی ڈی ایم کی جو میٹنگ ہوئی اس کے لئے ان کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ اے این پی نے تو علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا، تاہم پیپلزپارٹی تو پی ڈی ایم کے حوالے سے دعویدار  ہے، اب یہ عجیب بات لگتی ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو واپسی کی دعوت بھی مشروط دی گئی، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ باقی جو ہیں وہ سب ایک ہی جیسے ہیں اور ان کا یقین بھی بیانیے پر ہے،اِس لئے یہ تو مشکل ہو گیا کہ یہ دونوں جماعتیں واپس آ جائیں تاہم پیپلز پارٹی کو غور کرنا ہو گا کہ ان کی وہ پالیسی جس کی وجہ سے پی ڈی ایم اختلاف کا شکار ہوئی ”سپھل“ نہیں ہوئی کہ سرکار اور سرکاری جماعت کی طرف سے جمہوریت کا ذکر ضرور کیا گیا، مذاکرات اور بات چیت کے حوالے سے بیان بھی دیئے گئے، لیکن یہ سب خوش فہمی ہی رہی کہ حکمران جماعت کی طرف سے ویسا مثبت جواب نہیں ملا، چنانچہ یوسف رضا گیلانی کی خوش کن پیشکش بھی ابھی کوئی پھل نہیں دے سکی۔تحریک والے شاید ایک صفحہ کی بدولت اپنے زعم میں راسخ ہیں کہ ان کی اپوزیشن کا وجود نہیں اور ان کو فکر نہیں۔ پی ڈی ایم کے انتشار سے وہ خود کو محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔ امورِ مملکت اور سیاست میں ایسا نہیں چلتا، حکمرانی اور جمہوریت کے لئے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک ہی گاڑی کے دو پہیئے ہیں اور ایک  پہیئے سے گاڑی نہیں چلتی،اِس لئے بہتر عمل یہی ہے کہ کپتان صرف زبانی بات نہ کریں عملی قدم بھی اٹھائیں کہ مفاہمتی فضا ہو، آرڈی ننسوں سے جان چھوٹے اور قومی اسمبلی میں بھی قانون سازی ہو اور عوامی بہبود کے حوالے سے بحث کے بعد منظور ہوتی اب بجٹ بھی آنے والا ہے اور اس سے پہلے یہ فضا ضروری ہے۔ فواد چودھری جو بار بار اس حوالے سے بات کرتے ہیں،ان کو صرف بیان تک محدود نہیں رہنا چاہئے، بلکہ آگے بڑھ کر باقاعدہ کوشش کرنا چاہئے کہ یہ محاذ آرائی ختم ہو جائے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ تلخ بیانات سے گریز کر لیا جائے اور باہمی احترام کی فضا پیدا کی جائے، اسی صورت سے محمد شہباز شریف کی باہر آمد مفید ہو سکتی ہے، خود ان کی جماعت والے  ”ببر شیروں“ کو بھی اپنے روپے میں تبدیلی لانا چاہئے۔ پی ڈی ایم نہ سہی پارلیمینٹ سطح پر اتحاد لازم ہے۔ابھی تک وہ باہر نہیں آئے کہ ڈویژن بنچ کے دو فاضل جج حضرات کے درمیان فیصلے پر اختلاف ہو گیا۔یوں رہائی میں تاخیر ہوئی،جب تک معاملہ ریفری جج کے پاس جا کر طے نہیں ہوتا۔

مزید :

رائے -کالم -