وزارتوں کی ریوڑیاں اور مہنگائی کے نشتر

وزارتوں کی ریوڑیاں اور مہنگائی کے نشتر
وزارتوں کی ریوڑیاں اور مہنگائی کے نشتر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


واہ صاحب واہ کیا خوب گڈگورننس چل رہی ہے۔ ایک طرف وزارتوں کی ریوڑیاں بٹ رہی ہیں اور دوسری طرف مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے۔ ہمارے وزراء ہر فن مولا ہیں، جس وزارت میں لگا دو، فٹ ہو جاتے ہیں، اب ہمارے شبلی فراز جنہوں نے شاید سائنس اتنی ہی پڑھی ہو جتنی ہم نے پڑھی ہے، مگر انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سونپی جا رہی ہے۔ فواد چودھری جو سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر بن کر نت نئی سائنسی ایجادات کی خوشخبریاں سنا رہے تھے، انہیں دوسری مرتبہ اطلاعات کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے۔ یہ ان کی بڑی پرانی خواہش تھی کہ انہیں یہ وزارت دوبارہ ملے، اس خواہش کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اطلاعات کا وزیر نہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ پریس کانفرنسیں وہی کرتے تھے، وہ بھی سائنسی نہیں،بلکہ سیاسی موضوع پر۔ خیر یہ تو وزیراعظم عمران خان کا صوابدیدی اختیار ہے جسے چاہیں جو سونپ دیں، لیکن مہنگائی کے معاملے میں ان کا کوئی طریقہ، کوئی حکمت عملی اور کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہو رہی۔ مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے کوئی وزیر بھی نہیں بنایا ہوا کہ اس سے بندہ پوچھ ہی لے کہ بھائی کہاں سوئے ہوئے ہو،کیا کر رہے ہو؟


ابھی کل ہی یہ خبر چھپی ہے کہ حکومت نے پچاس ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ مقصد اس کا یہ بتایا گیا ہے کہ ملک میں مافیا چینی سستی نہیں ہونے دے رہا، اس لئے چینی درآمد کرکے عوام کو سستے داموں بیچی جائے گی، اسی دن ٹی وی چینلوں پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ترجمان کا یہ بیان بھی چل رہا تھا کہ حکومت کی پابندیوں اور چھاپوں کے خوف سے ڈیلرز چینی نہیں اٹھا رہے اور شوگر ملوں میں چینی سٹاک کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ یہ دہائی بھی دی تھی کہ چینی کی سپلائی رک جانے کے باعث وہ مالی مشکلات سے دوچار ہو گئی ہیں، بنکوں کے قرضوں کی واپسی، ٹیکسوں کی ادائیگی، مزدوروں کی تنخواہوں اور دیگر روزمرہ معاملات کے لئے ان کے پاس سرمایہ نہیں، جس کی وجہ ہزاروں افراد کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے، مگر ساتھ ہی یہ پخ بھی لگا دی کہ چینی 80روپے کلو کے حساب سے نہیں دے سکتے، کیونکہ وہ 104روپے کلو تو خود مل مالکان کو پڑتی ہے۔80روپے کلو بیچیں تو انہیں کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اب حکومت کے پاس تو اس کا وہی جواب ہے جو وزیراعظم عمران خان چند روز پہلے دے چکے ہیں، وہ کہتے ہیں اس شوگر مافیا نے کارٹل کرکے سات ماہ میں 140 ارب روپے زائد کمائے ہیں، یہ پیسہ عوام کی جیبوں سے نکلوایا گیا ہے، اس لئے شوگر کیس میں کسی کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ تو صاحبو! اس سارے ڈرامے میں پس ایک مرتبہ پھر عوام ہی رہے ہیں۔ مَیں جب خواتین کو چینی کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا دیکھتا ہوں تو اس نظامِ زر پر بہت غصہ آتا ہے۔ روزے کی حالت میں کورونا کے خوف سے بے نیاز گھنٹوں قطار میں لگ کر دو کلو چینی کا حصول کتنا شرمناک معاملہ ہے،  وہ بھی شناختی کارڈ کا اندراج کرانے  کے بعد۔مل مالکان اربوں روپے منافع تو کما سکتے ہیں، رمضان المبارک میں منافع کم کرکے چینی ملوں سے باہر لانے کو تیار نہیں، اُدھر حکومت بھی سخت اقدامات اٹھانے کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ گئی ہے۔ حالانکہ اسے شوگر ملز مالکان کے ساتھ بیٹھ کر کوئی درمیانی راہ نکالنی چاہیے۔ وہ حکومت کی منتیں کر رہے ہیں کہ ملاقات کا موقع دیا جائے، مگر کپتان کی سوئی اس نکتے پر اڑ گئی ہے کہ اب انہیں سبق سکھانا ہے۔ سبق ضرور سکھائیں، مگر ایسے نہیں کہ عوام چینی کے لئے خوار ہو کر رہ جائیں۔


مہنگائی کا ذکر آیا ہے تو ہمیں ملتان کے کمشنر جاوید اختر محمود یاد آ گئے، جنہوں نے اپنے 60پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کوشوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔ یعنی ڈویژن میں ساٹھ ہی مجسٹریٹس ہیں اور سب کی کارکردگی کو ناقص قرار دے کر ان سے جواب طلبی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی مہنگائی پیدا کرنے والے مافیا کے خلاف زیروٹالرنس پالیسی ہے۔ واہ جی واہ جب مارکیٹ میں اشیاء ہی نہیں ہوں گی تو پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کیا کریں گے۔یہ مجسٹریٹس صاحبان بازاروں میں تو پہنچ جاتے ہیں، منڈیوں میں نہیں جاتے، جہاں سے ساری مہنگائی عذاب بن کر نازل ہوتی ہے۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ رمضان سے ایک دن پہلے سبزیوں، پھلوں، دالوں  اور چاولوں کا ریٹ  کیا  تھا اور یکم رمضان کو یک دم کیسے بڑھ گیا۔ذخیرہ اندوز تو منڈیوں میں بیٹھے ہیں، وہاں ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ سب خانہ پُری کرکے اپنی جان چھڑاتے ہیں، جیسے کمشنر ملتان نے 60مجسٹریٹوں کو شوکاز نوٹس دے کر چھڑائی ہے، عوام کے ہاتھ تو کچھ بھی نہیں آنا وہ اسی طرح لٹتے رہیں گے۔ باقی معاملات کو تو چھوڑیں، یہ مرغی کے گوشت کو مہنگا کس نے کیا ہے۔ ساڑھے چار سو روپے کلو تک کس نے پہنچایا ہے۔ اس کا ریٹ تو خود ضلعی انتظامیہ نکالتی ہے۔ دکاندار سے پوچھو تو وہ ریٹ لسٹ نکال کر متھے مارتا ہے۔ کیا اس کے پیچھے بھی کسی مافیا کا ہاتھ ہے۔ حکومت اور ضلعوں کی انتظامیہ کو معلوم ہے کہ ذرا سی مداخلت کی تو یہ گوشت نایاب ہو جائے گا پھر زیادہ ہاہاکار مچے گی، اس سے بہتر ہے کہ عوام کو لٹنے دو، مہنگا بیچنے والوں پر ہاتھ نہ ڈالو۔ کراچی کے دکانداروں اور آڑھتیوں نے انتظامیہ کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ اشیاء 2019ء والی قیمتوں پر بیچی جائیں۔ میرے نزدیک یہ بھی ایک نادر شاہی حکم ہے۔ اس پر کیسے عملدرآمد ہوگا۔ یہ ساری بوالعجبیاں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ حکومت کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں، بس ٹامک ٹوئیاں مار کر وقت گزارا جا رہا ہے، تاکہ عوام کو احساس دلایا جا سکے حکومت چپ نہیں بیٹھی،بہت کچھ کر رہی ہے۔


کل وزیر خزانہ حماد اظہر نے خود یہ فخریہ ٹویٹ کیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مہینے میں دوسری بار کم کر دی گئی ہیں، وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ عوام پٹرول پیتے اور ڈیزل کھاتے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو مہنگائی اور بڑھ جاتی ہے، لیکن جب سستا ہوتا ہے تو مہنگائی کم نہیں ہوتی؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ڈالر 168روپے سے 152روپے پر آ گیا۔ کیا اس کا فائدہ عوام کو ہوا؟ جو قیمتیں بڑھ گئیں وہ  کم نہیں ہوئیں۔ یہ گاڑیاں بنانے والے ادارے اس ڈالر کی مہنگائی کو بنیاد بنا کر پچھلے ایک برس میں قیمتیں دس لاکھ روپے تک بڑھا چکے ہیں۔ اب ڈالر 16 روپے نیچے آیا ہے تو کوئی انہیں یاد نہیں کرا رہا کہ اسی تناسب سے قیمتیں کم بھی کرو، وزارتِ پیداوار اور ان گاڑی مینوفیکچرنگ اداروں کا ایک ایسا گٹھ جوڑ ہے۔ مہنگی گاڑی بھی وقت پر نہیں ملتی اور دو چار لاکھ روپے اون دینا پڑتا ہے۔ تو صاحبو! ہم پاکستانیوں کے نصیب میں بس یہی رہ گیا ہے کہ پستے رہیں، کڑھتے رہیں یا وزارتوں کے ادل بدل کے تماشے دیکھیں اور معجزوں کا انتظار کریں۔ آج اعظم سواتی ریلوے کی تباہی کا رونا رو رہے ہیں، کل تک شیخ رشید احمد اس کی ترقی کے ڈھنڈورے پیٹ رہے تھے۔ کپتان کے پاس بھی اب صرف یہی راستہ بچا ہے کہ وزارتوں پر چہرے تبدیل کرکے عوام کو طفل تسلی دیتے رہیں، عملی طور پر تو انہیں کچھ دے نہیں سکتے۔

مزید :

رائے -کالم -