یہ سب نہیں ہونا چاہیے تھا؟

  یہ سب نہیں ہونا چاہیے تھا؟
  یہ سب نہیں ہونا چاہیے تھا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 یہ سطور آج تاخیر سے لکھ رہا ہوں، خیال تھا کہ پنجاب اسمبلی میں ساڑھے گیارہ بجے والے اجلاس کے بعد شروع کروں تاکہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کا نتیجہ آ جائے، لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا کہ اخبار کے لئے اوقات بھی متعین ہوتے ہیں اور مجھے تو پورا صفحہ ترتیب دینا ہے۔ تاہم یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میرا دل دکھ سے بھرا ہوا ہے۔ آج جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا، اس کی وجہ سے میرے ذہن میں موجود کئی بت پاش پاش ہو گئے اور یہ احساس ہونے لگا کہ ”نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے غافل مسلمانو! تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں“ ماضی میں یہ کہا معجزاتی پیش گوئی ہے۔ آج جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا، اس سے میرے اس اندیشے کو تقویت ملی ہے کہ اللہ نہ کرے۔ میرے اس پیارے پاکستان میں خانہ جنگی کا منظم منصوبہ بنا لیا گیا ہے اور اقتدار کی کشمکش میں لوگ بھول گئے کہ یہ جاء پناہ جاء امن ہے، اگر نصیب دشمناں اسے کچھ ہوتا ہے تو نہ صرف ہم، ہماری آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوں گی اور جو یہ کہاجاتا ہے کہ آج ہم اس پاکستان کی بدولت آزاد، شہری، انسان اور بڑے لوگ ہیں اگر یہ نہ ہوتا تو ہم جیسے حضرات کسی جگہ چپڑاسی ہوتے اور آج جو روزہ رکھ کر سکون سے دفتر میں کام کر رہے ہیں، ہمیں ایسا بھی کرنے سے روک دیا جاتا لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ جن کو احساس کرنا چاہیے، وہی بے چینی اور معاشرے میں افراتفری پیدا کر رہے ہیں۔


میں اسی دکھی دل کے ساتھ عرض کروں کہ ایک نوجوان رپورٹر کی حیثیت سے سیاسی رپورٹنگ کے دوران میرا واسطہ ایف سی کالج روڈ پر چودھری ظہور الٰہی مرحوم کی کوٹھی میں ان سے پڑا تو انہوں نے اپنے معتدل اور پیار بھرے رویے اور لہجے سے مجھ سمیت دوسرے ساتھیوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا اور پھر بتدریج یہ سلوک اس گھر کا نشان بن گیا اور چودھری ظہور الٰہی کے بعد ان کے صاحبزادے چودھری شجاعت حسین نے یہ منصب سنبھالا اور ڈیرہ داری اور حسن اخلاق کا عمل آگے بڑھایا، پھر ان کے ساتھ چودھری پرویز الٰہی بھی شامل ہو گئے، اس گھرانے کو اللہ نے بہت عروج دیا، چودھری شجاعت حسین وزیراعظم اور چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ اور نائب وزیراعظم بھی بنے اور دوبار ان کو سپیکر بننے کا اعزاز ملا۔ اس گھرانے سے یہ سلسلہ اپنی جگہ، چودھری پرویز الٰہی کا زیادہ احترام اس دور میں بڑھا، جب موجودہ وزیراعظم محمد شہبازشریف کی عدم موجودگی میں انہوں نے قائم مقام قائد حزب اختلاف کے فرائض سنبھالے اور جس ثابت قدمی اور فراست سے یہ عہد نبھایاوہ اپنی مثال رہا اور میں ان سے بہت متاثر ہوا۔


یہ گزارشات اس لئے کرنا پڑیں کہ آج جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا، وہ میرے خدشات کو تقویت دیتا ہے اور پنجاب اسبملی کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ پولیس حکام کو اسمبلی میں داخل ہونا پڑا کہ بوجوہ ڈپٹی سپیکر خطرے میں گھر گئے تھے۔ یہ قائد ایوان کے انتخاب کے لئے مقررہ اجلاس ہے اور عدالت عالیہ کے واضح احکام اور ہدایات کے مطابق بلایا گیا۔ اس کی صدارت ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے کرنا ہے جو تحریک انصاف ہی کی طرف سے منتخب ہوئے تھے لیکن دکھ ہوا، جب وہ اجلاس کی صدارت کے لئے آئے تو باقاعدہ ان پر حملہ کر دیا گیا، ان کو گرا کر لاتیں ٹھڈے مارے گئے ان کا گھیراؤ کرکے بال بھی کھینچے گئے، اسمبلی کے سیکیورٹی سٹاف نے بمشکل ان کو ان اراکین کی گرفت سے چھڑایا اور وہ اپنے دفتر میں چلے گئے جس کے بعد پولیس حکام ان سے ملنے کے لئے آئے۔


قارئین! خیال رہے کہ اس اجلاس کے لئے میڈیا کو کوریج کی اجازت دی گئی اور سابقہ معمول کے مطابق پریس گیلری کو کھولا گیا، تاہم الیکٹرونک کیمرے اسمبلی سے باہر رہے، یہ سب جو ہوا، الیکٹرونک میڈیا کی بدولت سکرینوں تک بھی پہنچ گیا اور یہ مناظر سب نے دیکھے، ان میں ہم لوگ بھی شامل ہیں، جو منتظر تھے کہ کوئی فیصلہ ہو تو لکھا جائے، یہ اطلاع بھی مل گئی کہ اسمبلی پریس گیلری سے ”موبائل کوریج“ روکنے کے لئے ”جیمر“ بھی لگا دیئے گئے تاہم جو کچھ ہو چکا تھا وہ تو منظر عام پر آ گیا اور یہ بھی رپورٹ ہوا کہ تحریک انصاف کے اراکین اپنی نشستوں پر بیٹھ کر نعرے لگا رہے اور کہہ رہے کہ ”منحرف اراکین“ کو ووٹ نہیں ڈالنے دیں گے، اس سے قبل مسلم لیگ (ق) کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ کی سنگل بنچ اور پھر انٹرا کورٹ اپیل کے ذریعے ڈویژن بنچ سے رجوع کیا۔ ہر دو فیصلوں کے مطابق یہ واضح ہدائت ہے کہ کسی بھی رکن کو ووٹ ڈالنے سے نہ روکا جائے، تاہم جو بھی ہوا اور جواب تک ہو رہا ہے، یہ سب ان احکام اور ہدایات کے خلاف ہے، اسی عدالت نے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو بھی ہدائت کی تھی کہ وہ سیکیورٹی کے بھی انتظام کریں اور یہ اہتمام بھی کریں کہ سارا عمل پُرامن طور پر ہو جائے۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا اور یہ سب پورے پاکستان نے ٹی وی سکرینوں پر دیکھ لیا۔ اب یہ تو بہت مشکل ہے کہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو اور آپ اسے نظر انداز کر دیں، یہ رپورٹ ہوا اور مزید بھی ہوتا رہے گا۔


اب میں چودھری پرویز الٰہی کی خدمت میں عرض کروں کہ وہ محض پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے اس سب کا حصہ بن گئے، مجھے بہت سے ایسے واقعات یاد ہیں اور میں عینی شاہد بھی ہوں، جہاں شریف خاندان اور چودھریوں میں سخت تناؤ پیدا ہوا، لیکن چودھری شجاعت حسین کی فراست سے یہ اختلاف سے آگے نہ بڑھا اور اب تو محمد شہبازشریف چل کر بھی چودھری ہاؤس چلے گئے تھے اور چودھری شجاعت نے مصالحتی روائت کو برقرار رکھا تھا اور اسی وجہ سے ان کے صاحبزادے سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوئے لیکن خود چودھری پرویز الٰہی نے یہ راستہ نہ اپنایا اور متحدہ اپوزیشن کی طرف سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش مسترد کرکے تحریک انصاف کی قبول کرلی۔ تحریک انصاف کا رویہ سب پر ظاہر ہے کہ وفاق کی سطح پر کیا ہوا اور اب عمران خان ایک تحریک کا اعلان کرکے جلسے کر رہے ہیں، ایسے میں شاید وہ پنجاب میں فتح کے بعد یہاں بھی کوئی اور رویہ اختیار کرتے، تاہم چودھری پرویز الٰہی نے تحریک انصاف ہی سے اتحاد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔


اب میں اختتام کی طرف آتا ہوں کہ مجھے توقع ہی نہیں۔ یقین تھا کہ چودھری پرویز الٰہی جمہوری ذہن کے شخص ہیں، وہ عدالت عالیہ سے رجوع کرکے آ چکے ہیں۔ اس لئے پُرامن انتخاب میں معاون ہوں گے، لیکن یہ نہ ہوا اور اب وہ غصہ میں آئی جی کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ اسمبلی کے باہر کیمروں کے سامنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کے یہ جملے نشر ہوئے اور کلپ موجود ہیں کہ نیتوں میں فتور اور خرابی ہے، ان کا الزام فریق مخالف پر تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے ”اب وہ (ڈپٹی سپیکر) ہنگامہ کنٹرول کرکے دکھائے“…… قارئین! معذرت خواہ کہ یہ سلسلہ جاری ہے۔ بات پھر یہاں ختم کرتا ہوں کہ اللہ میرے ملک پر رحم کرے اور مستقبل کے بارے میں میرے خدشات غلط ثابت ہوں۔

مزید :

رائے -کالم -