انسانی ذہن اور پروپیگنڈہ
کسی بھی شعبے میں پروپیگنڈہ انسانی ذہن کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔یہ ایک دلچسپ موضوع ہے اب اس میدان میں ٹیکنالوجی کا کردار بہت بڑھ گیا ہے اور شاید فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکا ہے تاہم یہ موضوع نیا نہیں، بلکہ خاصا پرانا ہے۔ اس شعبے میں 1945ء میں جرمنی کے وزیر پروپیگنڈہ (آج کی ٹرم میں وزیر اطلاعات) جوزف گوئبلز نے بڑی شہرت حاصل کی، گوئبلز ہٹلر کی قیادت میں نازی پارٹی کے ایک اہم رکن تھے۔انہوں نے پروپیگنڈے کی طاقت کا مؤثر استعمال سیاست میں خاص کر یہودیوں اور مسیحیوں کے خلاف کیاجو ایک مثال بن گیا، لیکن اس ہتھیار کا استعمال اب صرف سیاست تک محدود نہیں،بلکہ زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں کامیابی سے کیا جا رہا ہے۔ پروپیگنڈے کا کمال یہ ہے کہ یہ صحیح یا غلط سے بلند ہے اِس کے ذریعے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کسی مقصد کے حصول کے لئے یا کسی فائدے کے استعمال کے لئے تو اس کے استعمال کی سمجھ آتی ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بعض دفعہ اس کے پیچھے کوئی مقصد بھی نہیں ہوتا۔ آج میں ایک ایسی ہی صورتحال کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
پاکستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں اُردو، پنجابی، پشتو، بلوچی، براہوی، کشمیری، سرائیکی وغیرہ شامل ہیں لیکن اُردو ہماری قومی زبان اور سرکاری بھی ہے اگرچہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اس کا عملی نفاذ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ تاہم یہ پاکستان میں مختلف صوبوں اور قومیتوں کے درمیان رابطے کی زبان کی حیثیت تو اختیار کر چکی ہے۔ اُردو کے ارتقاء اور اہمیت کے بارے میں ایک الگ کالم لکھ چکا ہوں لہٰذا یہاں اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اُردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کے سلسلے میں کیا رکاوٹیں ہیں اور اس کے کیا نقصانات ہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے، جس کا تعلق حکومتوں کی پالیسیوں سے ہے، لیکن دو مسئلے اور بھی ہیں ایک انگلش میڈیم سکولوں کا قیام اور ہماری روزمرہ کی بول چال۔ نئی نسل سے گھروں میں بھی عموماً مادری زبان میں بات چیت کم ہوتی ہے اس سے کم از کم پنجابی زبان پنجابی بچوں کے لئے اجنبی ہوتی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں تو تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے لیکن ہم اپنے بچوں کو اُردو اور انگلش پڑھا رہے ہیں۔ انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھنے والے بچے صرف مادری زبان اور کلچر سے دور نہیں ہو رہے، بلکہ تہذیبی روایت اورعلمی ادبی سرمائے سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔اب اِن بچوں سے اقبال، فیض، حفظ جالندھری اور غالب کو سمجھنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وارث شاہ، بلھے شاہ اور خواجہ فرید جیسے عظیم صوفی شعراء کی اہمیت کا انہیں کیا ادراک ہو سکتا ہے؟ یہ کوئی معمولی نقصان نہیں۔
دوسرا مسئلہ ہماری قومی زبان اُردوسے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق پندرہ سال میں اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا تھا،جس پر عمل نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس پر عملدرآمد کا حکم دیا، لیکن عملی طور پر صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی لیکن اب اُردو سے متعلق ایک اور افسوسناک صورتحال درپیش ہے۔ بول چال میں ہم اُردو کی درگت بنا رہے ہیں وہ میرے لئے تو کم از کم اذیت ناک ہے۔ پہلے ہم پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کے لوگوں کی اُردو کا مذاق اُڑاتے تھے، کیونکہ اس میں عموماً مذکر مونث کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا، لیکن اب توسارے پاکستان میں تقریباً 100 فیصد لوگ اُردو کا جو ستیاناس کر رہے ہیں وہ حیرت انگیز ہے اب پڑھے لکھے لوگوں کی گفتگو سنیں تو اُس میں دو لفظوں ”اندر“ اور ”اوپر“ کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے ”میں“ اور ”پَر“ کے الفاظ گویا ڈکشنری سے نکال دیئے گئے ہیں۔ مثلاً ماضی میں ایک وزیر صاحب کہہ رہے تھے کہ اس قانون کے ”اوپر“ یہ کیس بنتا ہے یعنی کیس قانون کے تحت نہیں،بلکہ اوپر بنے گا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اس قانون کے اندر یہ چیز موجود ہے پاکستان کے اندر پارلیمنٹ کے اندر محکمے کے اندر غرض ہر چیز اندر ہے۔ گویا ”میں“ کا لفظ ڈکشنری سے نکال دیا گیا ہے۔ عمران خان کہہ رہے تھے ”جو قرآن میں نے پڑھی ہے“۔ اندر اور اوپر کے علاوہ ہر جملے میں کم از کم ایک یا دو دفعہ ”جو ہے“ بھی لازمی استعمال ہو گا پتہ نہیں ”جو ہے“ کے علاوہ جملہ کیسے نامکمل رہتا ہے۔اگر حکومت یا کوئی ادارہ کسی کام کی منصوبہ بندی کر رہا ہے یا کوئی کام شروع کیا جا رہا ہے تو اس مقصد کے لئے کہا جائے گا کہ حکومت یہ کام کرنے جا رہی ہے، فلاں کام ہونے جا رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ صورتحال کیسے پیدا ہوتی ہے اور کیا یہ درست ہے اور کیا اس میں کسی طبقے کا مفاد وابستہ ہے؟ ایسا نہیں تو پھر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ بڑی غور طلب بات ہے کہ انسانی ذہن کیسے ایک سراسر غلط بات کو اپنا لیتا ہے بیشک اس میں کسی طبقے کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بات ایک گروپ یا طبقہ مسلسل کہتا رہے تواُس بات کو عوام میں مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے۔ ابتداء میں جو ہے، اندر اور اوپر کا استعمال ایک چھوٹا طبقہ کر رہا تھا جن میں کچھ سیاستدان مثلاً خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ اور کئی دوسرے حضرات شامل ہیں،لیکن حیرت ہوتی ہے کہ آہستہ آہستہ یہ سراسر غلط زبان مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ یہ بات پراپیگنڈے میں بھی نہیں آتی،کیونکہ اس میں کسی کا کوئی مفاد وابستہ نہیں اگر کوئی مفاد وابستہ ہو تو پراپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو کسی قسم کے لایعنی نعروں اور جھوٹے سچے بیانیے کی حمایت یا مخالفت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ کسی مقصدیا مفاد کا ہونا بھی ضروری نہیں اور غلط یا صحیح کی تمیز کی بھی کوئی شرط نہیں۔ انسانی ذہن کی کمزوری ہے کہ کسی فائدے کے بغیربھی انسان گمراہ ہو سکتا ہے بشرطیکہ بیانیے میں تسلسل رہے۔