قادر الکلام کائرہ+ شب قدر اور دہشت گرد!
پاکستان پیپلزپارٹی میں چند ہی حضرات ایسے ہیں، جن کو قادر الکلام کہا جا سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو اس صفت کے حامل ہوتے ہوئے خود کو ایک ایسے مقام پر لے گئے ہیں، جہاں ان کا انداز بیاں بہت محتاط ہوتا ہے ان محترم حضرات میں میاں رضا ربانی اور چودھری اعتزاز احسن کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ میاں رضا ربانی تو پیپلزپارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی ہیں، جبکہ چودھری اعتزاز احسن کی مرکزی مجلس عاملہ والی حیثیت بحال ہو چکی ہوئی ہے اس لئے اب وہ تھوڑا بہت پارٹی کا بھی لحاظ رکھ رہے ہیں۔ شاید یہ آنے والے انتخابات کا اعزاز ہے کہ وہ اپنے پرانے حلقہ ¿ انتخاب کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ اغلباً اس حلقہ سے اس بار اُن کی اہلیہ امیدوار ہوں گی۔2008ءکے انتخابات میں محترم نے بوجوہ حصہ نہیں لیا اور یہ نشست مسلم لیگ(ن) کے حصے آئی اور شیخ روحیل اصغر جیتے جو پیپلزپارٹی لاہور کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اس بار اُن کی افطار پارٹی بھی شاید اسی خواہش کی مظہر تھی اس افطار نے معقول رش بھی لیا اور چودھری اعتزاز نے چیف صاحب کا لحاظ رکھتے ہوئے بھی پارٹی لائن کے مطابق رائے دی کہ عدلیہ نے بھی بعض فیصلے آئین سے بالا کئے ہیں جہاں تک میاں رضا ربانی کا تعلق ہے تو وہ قومی سلامتی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور بالا اتفاق ہیں۔ اس سے پہلے وہ 18ویں اور20ویں ترمیم کی تیاری اور منظوری میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ نیٹو سپلائی کے حوالے سے بھی انہی کی صدارت میں تجاویز تیار ہوئیں، اس لئے پارٹی کے نظم و نسق کا لحاظ رکھتے ہوئے بھی وہ ایسی بات کر جاتے ہیں، جو قومی سطح پر قابل قبول ہو۔
ان دو حضرات کا ذکر آیا تو ہم اول الذکر کو پیچھے لے گئے، حالانکہ اپنی سابقہ اور موجودہ حیثیت کے مطابق وہ اچھی نقطہ رسی کرتے ہیں۔ یہ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ ہیں جو کھل کر بات کرنے کے عادی ہیں اور اُن کا انداز بھی مہذبانہ ہوتا ہے، ویسے بھی وفاقی کابینہ میں جو ذمہ داری اُن کے سپرد ہے اس کا تقاضہ بھی یہ ہے وہ پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات ہیں تو وفاقی کے بھی وزیر اطلاعات ہی ہیں یہ ذمہ داری ان کو تھوڑے وقفے کے بعد دوبارہ سونپی گئی ہے۔ آج کل وہ بڑے معقول انداز میں مخالفین کے بعض الزامات اور بعض نازیبا باتوں کا جواب دیتے ہیں۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے ”فرزند راولپنڈی“ شیخ رشید کی تقریر کا نوٹس لیا اور اُن کو خبردار کیا کہ وہ مہذب پن اختیار کریں ورنہ ”ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں“۔ قمر زمان کائرہ نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مخاطب کیا اور کہا کہ یہ انداز سیاست ہے کہ انہوں نے عوام کے مسترد شخص کو پاس بٹھا کر قومی قیادت کے بارے میں انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کرائی۔ وزیر اطلاعات کہتے ہیں سیاست میں مخالفت کوئی بُری بات نہیں، لیکن انداز تو مہذبانہ ہونا ضروری ہے جو شیخ رشید کا تو ہر گز نہیںہے۔
قمر زمان کائرہ نے دوسری بار وزارت اطلاعات کا حلف اُٹھانے کے بعد توجہ اسلام آباد پر مرکوز رکھی، شاید یہ عدالت عظمیٰ کی فعالیت کے باعث تھی کہ اسلام آباد میں سرگرمیاں بھی زیادہ ہو رہی تھیں۔ چنانچہ اسلام آباد پریس سے اُن کا ٹاکرا ہوتا رہا۔ دیر بعد ہی سہی وہ گزشتہ روز لاہور آ ہی گئے اور میڈیا کے سینئر حضرات سے مکالمہ بھی کر لیا۔ یہ خوشگوار محفل تھی۔ اس میں سخت سوالات کے جواب میں نرم انداز اور مسکراتے ہوئے دیئے گئے۔ بہرحال باتیں سب وہی تھیں جو وہ اسلام آباد میں کہہ چکے البتہ بعض تجاویز ضرور دی گئیں جن کو غور سے سننے کے بعد انہوں نے مزید غور کا بھی وعدہ کر لیا۔
قمر زمان کائرہ کی بات ہوئی تو یاد آیا کہ بدھ کو ہونے والی وفاقی کابینہ کی بریفنگ میں انہوں نے یہ بتایا کہ کابینہ کے سامنے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی اثاثوں کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی، جسے کابینہ نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ تمام سرکاری ملازمین کے حوالے سے نہیںہے۔ محکمہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ ججز، جرنیلوں سمیت ان تمام سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی رپورٹ مرتب کر کے پیش کی جائے جو قومی خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں۔ اس میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ قمر زمان کائرہ کے مطابق سیاست دانوں کے لئے تو دو تین بار اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہے۔
وفاقی کابینہ کے اس فیصلے اور ہدایت سے ہمیں یقین سا ہو چلا ہے کہ جو احتساب بل مجلس قائمہ برائے قانون و پارلیمانی امور کے پاس زیر التوا ہے اس پر اب اتفاق ہو ہی جائے گا کہ مسلم لیگ(ن) کو اس بل پر جو اعتراضات ہیں ان میں سے ایک اعتراض تو کابینہ فیصلے کی رُو سے تسلیم کر ہی لیا گیا ہے۔ ملک میں آج جتنی بھی سیاست ہو رہی ہے، وہ کرپشن کے الزامات کے حوالے ہی سے ہو رہی ہے۔ حزب اختلاف (اسمبلی کے اندر یا باہر) کی طرف سے مسلسل حکمرانوںکو کرپشن کی سان پر رکھا گیا ہے جبکہ عدالت عظمیٰ بھی متعدد معاملات میں کرپشن تلاش کر کے اس کا علاج بھی تجویز کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایسے ہی میں قومی اسمبلی میں ایک احتساب بل پیش کیا گیا جس کا مقصد یہ بیان ہوا کہ ایک ایسا خود مختار اور آزاد احتسابی ادارہ بنایا جائے جو سب کا احتساب کر سکے۔ مطلب یہ تھا کہ بازار میں کرپشن کرپشن کی جو بات ہو رہی ہے اسے ضابطے میں لے آیا جائے، تاکہ الزام تراشی کی جگہ ٹھوس کام ہو۔ یہ بہت اچھی تجویز اور اسی لحاظ سے بل بھی ہے تاہم ہوا یہ کہ قومی اسمبلی کی حزب اختلاف کو اس بل کے حوالے سے کئی اعتراضات ہو گئے۔ حزب اختلاف نے دعویٰ کیا کہ وہ بل میں ایسی ترامیم کے حق میںہے، جن کی وجہ سے احتسابی ادارہ زیادہ بااختیار، آزاد اور خود مختار ہو اور اس ادارے کو حکومت وقت کے اثرو نفوذ سے آزاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس لئے اس کے اراکین کی نامزدگی بھی اہلیت اور معیار کے مطابق ہونا چاہئے۔ حزب اقتدار کے مطابق بل میں یہ سب تحفظات موجود ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ کوئی بھی احتساب کے دائرہ کار سے باہر نہ رہے۔اس میں اگر سیاست دان آتے ہیں تو سول سرونٹس، فوجی جرنیل اور ججز کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔
ہمارے خیال میں فریقین کے درمیان کوئی زیادہ اختلاف رائے نہیں، بعض شقوں میں طرز تحریر پر بھی مختلف رائے ہے، لیکن یہ اختلافات ایسے تو نہیں جو دور نہ ہو سکیں۔ اگر نیت صاف ہو تو یہ بل قابل قبول کیوں نہیں؟ جلد از جلد منظور ہو سکتا ہے، اگر18ویں، 19ویں اور 20ویں ترمیم پر اتفاق ہو سکتا ہے تو یہ بل اور بھی جلد منظور کرایا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مجلس قائمہ مسلسل اجلاس کرے۔ حزب اختلاف اپنی تجاویز کو ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کرے۔ حزب اقتدار والے تحمل سے سنیں اور اپنے مو¿قف کی بھی وضاحت کریں، یقینا اتفاق رائے ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اتفاق رائے کے بعد یہ بل بھی متفقہ طور پر منظور ہو اور نیا احتسابی ادارہ جلد از جلد قائم ہو کر کام شروع کر دے۔ تاکہ الزامات کی سیاست ختم ہو اور کوئی ٹھوس کام ہو تاکہ کرپشن پر کسی طرح قابو پایا جا سکے۔
مسلمانون پاکستان نے بدھ اور جمعرات کی شب کو پورے دینی جذبے کے ساتھ شب قدر کی تلاش اور جستجو کی، رات بھر عبادت ہوئی، مساجد بھری ہوئی تھیں، رات نور والی تھی۔ اس حوالے سے پرنٹ میڈیا نے تو خصوصی ایڈیشن شائع کر کے اپنا دینی فرض ادا کیا تاہم الیکٹرونک میڈیا کو بھی بھرپور خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے، جس نے اس بابرکت رات کو اور بھی پُرزور بنا دیا، خصوصی محافل میں خصوصی نشریات اور دُعاﺅں کا اہتمام کیا گیا۔ شب قدر کی یہ رات نور پُرنور تھی اور یہ احساس ہوتا تھا کہ اس بُرے وقت میں بھی اللہ کے نیک بندوں کی کمی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی بدقسمتی بھی ساتھ تھی کہ اس مبارک رات کو جب لوگ رو رو کر ملک کی سلامتی اور عوامی بہبود کی دُعا کر رہے تھے، اشک رواں تھے اور سسکیاں سنائی دے رہی تھیں ایسے میں کچھ کم بختوں نے اس بابرکت رات کو داغدار کرنے کی کوشش کر ڈالی اور کامرہ ایئر بیس پر گوریلا کارروائی کی۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق بدبخت دہشت گردوں کی کارروائی کے نتیجے میں دو جہازوں کو نقصان پہنچا۔ ایک جوان شہید ہوا جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ اطلاع یہ ہے کہ جوابی کمانڈو آپریشن کے نتیجے میں کمانڈوز نے آٹھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا تھا اور حالات مکمل طور پر قابو میں تھے۔ مزید تفصیلات آ رہی ہیں۔ اے اہل ایمان اور پاکستان کے لوگو! بتاﺅ کہ کیا یہ مسلمان ہو سکتے ہیں؟ ٭