مغربی ملک میں ’مسلمانوں‘ نے چرچ میں گُھس کر عیسائیوں کو عبادت کرنے سے روک دیا، لیکن مسلمانوں کے روپ میں یہ لوگ دراصل کون تھے؟ ایسی حقیقت کہ جان کر آپ کے غصے کی انتہا نہ رہے گی
سڈنی (نیوز ڈیسک) آسٹریلیا کے شہر نیو ساﺅتھ ویلز کے ایک گرجا گھر میں اس وقت خوف و ہراس پھیل گیا جب بظاہر مسلمان نظر آنے والے درجن بھر افراد نے چرچ میں جاری عبادت کے دوران ہلہ بول دیا۔ جلد ہی پورے ملک میں اس واقعے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی شروع ہو گئی، لیکن بعد ازاں پتا چلا کہ یہ حملہ آور آسٹریلیا کی دائیں بازو کی جماعت پارٹی فار فریڈم سے تعلق رکھنے والے غنڈے تھے، جو مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ان کا حلیہ اختیار کرکے چرچ میں گھس گھس گئے تھے۔
مسلمان خاتون ائیرہوسٹس جس نے اپنا ایمان بچانے کیلئے نوکری کو لات ماردی، ’حکم‘ نہ ماننے پر نوکری سے نکال دیا گیا
چرچ کے پادری فادر بوئر نے بھی تعصب کی حد کر دی۔ ابتدائی طور پر تو وہ اس واقعے کی شدید مذمت کرتے رہے، لیکن جب پتہ چلا کہ چرچ میں گھسنے والے افراد مسلمان نہیں تھے بلکہ انہوں نے محض مسلمانوں کا حلیہ اختیار کررکھا تھا تو وہ بھی ان کی حمایت میں بولنے لگے۔ فادر بوئر کہنے لگے کہ وہ احتجاج اور اظہار رائے کے حق کی حمایت کرتے ہیں اور چرچ میں گھسنے والے بھی صرف اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔
مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت پھیلانے کے لئے بے بنیاد الزامات لگانا تو ایک عام بات ہوچکی تھی مگر یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اب مغربی ممالک میں غیرمسلم شدت پسند مسلمانوں کا روپ دھار کر ایسی حرکتیں کررہے ہیں کہ جن کے ذریعے مسلمانوں کو شدت پسند اور امن و امان کے دشمن ظاہر کیا جاسکے۔