بھارتی وزیراعظم کی بوکھلاہٹ
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ مودی کی تقریر میں بلوچستان کا ذکر اندرونی معاملات میں مداخلت کی تصدیق ہے۔ مودی نے ثابت کیا کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، مقبوضہ کشمیر کا آزاد کشمیر سے موازنہ حقائق کے منافی ہے، تقریر مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظاہروں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں یہ حقِ خود ارادیت کے حصول کی خالصتاً مقامی تحریک ہے۔ کشمیر کا بنیادی مسئلہ گولیوں کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا، آئیں اور کشمیر پر بات کریں، مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں نہتے نوجوان روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کر رہے ہیں، اب تک70معصوم کشمیری شہید اور چھ ہزار زخمی ہو چکے ہیں،37 روز سے مسلسل کرفیو نافذ ہے اور مکمل میڈیا بلیک آؤٹ ہے، سرتاج عزیز نے بھارتی وزیراعظم کی یوم آزادی کے موقع پر تقریر پر ردعمل میں مزید کہا کہ بلوچستان ہمارا حصہ اور اس پر بھارت کے ساتھ ہمارا تنازعہ یہ ہے کہ بھارت اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کی ترغیب دے رہا ہے، اس کی تصدیق اِس سال مارچ کے مہینے میں بھارتی نیوی کے حاضر سروس آفسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھی ہو گئی۔
بھارتی وزیراعظم نے یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے کی روایتی تقریب میں جو خطاب کیا اس کو خود بھارت میں نکتہ چینی کا ہدف بنایا گیا ہے، اور تو اور بھارت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اپنے وزیراعظم کو یاد دِلانا ضروری سمجھا کہ بلوچستان سے بھارت کا کیا تعلق؟ مودی عدلیہ اور مرکزی حکومت کو مفلوج نہ کریں۔ جسٹس ٹھاکر نے کہا کہ یہاں عدالتوں میں جج نہیں اور مودی بلوچستان کی بات کر رہے ہیں، وہ ججوں کی کمی پر بات کرتے، جسٹس ٹھاکر وہی چیف جسٹس ہیں، جو کچھ عرصہ پہلے بھارتی عدلیہ کی حالتِ زار اور ججوں کی کمی کا تذکرہ کرتے ہوئے رو پڑے تھے۔ مودی کی تقریر پر سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ مودی نے کشمیر پر اپنا کیس تباہ کر لیا، کیا ہم امریکہ کو بھارت میں مظالم پر بات کرنے دیں گے ہم افریقہ اور یورپ میں مظالم پر بول سکتے ہیں؟ بھارت کے اندر مودی کی تقریر پر جو سوالات اُٹھا دیئے گئے ہیں مودی کو اُن کا جواب دینا پڑے گا، جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، پاکستان تو بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت ہر مسئلے پر بات چیت کے لئے تیار ہے اور اب تو پاکستان کے خارجہ سیکرٹری نے بھارتی خارجہ سیکرٹری کو خط بھی لکھ دیا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ آئیں کشمیر پر بات کریں۔ یہ خط لکھنے کی خبر چند روز پہلے دفتر خارجہ کے حوالے سے سامنے آئی تھی، تو بھارت نے خط ملنے سے پہلے ہی مذاکرات کی تجویز مسترد کر دی تھی، اس کے باوجود اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر کو خارجہ سیکرٹری کا خط حوالے کیا گیا تو بھارت نے فوری طور پر مذاکرات کی تجویز مسترد کر دی ہے۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر کی صورتِ حال سے پریشان ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے تیار نہیں، کیونکہ اسے بخوبی احساس ہے کہ کشمیر پر اس کا موقف کمزور ہے، لیکن بھارتی وزیراعظم کی تقریر تو بوکھلاہٹ کا شاہکار معلوم ہوتی تھی۔انہوں نے بلوچستان کا نام لے کر اور کشمیر سے موازنہ کر کے حماقت کا ثبوت دیا اور ایک طرح سے صوبے میں مداخلت کو بھی تسلیم کر لیا ہے۔ اِس طرح اپنے موقف کی دھجیاں اپنے ہاتھوں سے بکھیر دی ہیں۔ پاکستان میں اُن کی تقریر پر ردعمل تو قدرتی اور منطقی ہے، لیکن بھارت کے اندر بھی اُن کی تقریر پر جو بیانات سامنے آئے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مودی کی تقریر کو بھارت کے اندر بھی پسند نہیں کیا گیا، کیونکہ بلوچستان اور کشمیر کا تو کوئی موازنہ سرے سے ہی نہیں ہو سکتا۔ بلوچستان پاکستان کا حصہ اور اندرونی معاملہ ہے، جبکہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، جس کا تصفیہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا ہے۔ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ بھارت کے ساتھ یہ مسئلہ سات عشروں سے متنازعہ چلا آ رہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اس پر مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں،اِس لئے بلوچستان اور کشمیر کے موازنے کی حمایت کر کے مودی نے اپنا موقف ہی کمزور کیا ہے۔
پاکستان کافی عرصے سے بھارت پر الزام لگا رہا ہے کہ وہ بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور وہاں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مصر میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملاقات کے دوران اُن سے بات کی تھی اور بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی اُن کے سپرد کئے تھے۔ انہوں نے اِس معاملے پر غور کا وعدہ بھی کیا تھا، ابھی حال ہی میں بلوچستان سے بھارتی جاسوس بھی پکڑا گیا ہے، جس نے اپنے بیان میں اعتراف کیا ہے کہ اُسے بھارتی حکومت نے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کا ٹارگٹ دیا تھا اِس مقصد کے لئے اُس نے مقامی افراد پر مشتمل نیٹ ورک بھی بنایا تھا۔ سرتاج عزیز نے مودی کے خطاب میں بلوچستان کے ذکر پر اِس جاسوس کی گرفتاری کا حوالہ بھی دیا ہے۔ مودی کے تازہ خطاب سے پہلے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول بھی بلوچستان کا تذکرہ اِسی انداز میں کر چکے ہیں۔ اِس لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان اب اِس معاملے کو اقوام متحدہ میں مودی کی تقریر کے حوالے سے اُٹھائے۔ اب مزید کسی ثبوت کی ضرورت بھی نہیں رہ گئی، کیونکہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اور خود وزیراعظم کو اگر بلوچستان کے امور میں ’’دلچسپی‘‘ ہے تو اس سے زیادہ مداخلت کا ثبوت کیا درکار ہے؟ مودی نے جوشِ جذبات میں جو بات کی ہے اُسے بھارت کے اندر بھی پسند نہیں کیا گیا، اِس لئے پاکستان اگر اب اِس معاملے کو عالمی فورموں پر اُٹھاتا ہے تو اُسے عالمی حمایت میسر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو اب یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے یہ نہ صرف متنازعہ علاقہ ہے، بلکہ اب ثابت ہو چکا ہے کہ کشمیر میں اِس وقت جو تحریک چل رہی ہے یہ مقامی نوجوانوں کی اپنی تحریک ہے،بھارت میں دانشوروں کی سطح پر بھی اب تسلیم کیا جا رہا ہے کہ یہ کوئی غیر ملکی نہیں ہیں، جو یہ تحریک چلا رہے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کے جذبات کو اگر37 روز کے کرفیو کے ذریعے بھی کچلا نہیں جا سکا، تو بھارت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ طاقت کے ذریعے اب اِس معاملے کو دبانا ممکن نہیں، اِس لئے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کے خط کو سنجیدگی سے لے کر بھارت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہئے۔ سرسری طور پر اِس دعوت کو مسترد کر دینا کسی طرح بھی مستحسن نہیں کہا جا سکتا۔ بھارت سنجیدگی کا مظاہرے کرے تو نہ صرف مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں، بلکہ نتیجہ خیز بھی بنائے جا سکتے ہیں، لیکن اس سے پہلے مودی اپنا موڈ ٹھیک کریں اور بوکھلایا ہوا رویہ بدلیں۔