جنرل ضیاء الحق شہید کی سفارت کاری و تزویر کاری

جنرل ضیاء الحق شہید کی سفارت کاری و تزویر کاری
جنرل ضیاء الحق شہید کی سفارت کاری و تزویر کاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہر سال17اگست کو شہدائے بہاولپور کی یاد میں اُن کی برسی نہایت وقار سادگی اور ولولے سے منائی جاتی ہے۔ یہ تقریب خالصتاً نجی طور پر بغیر کسی سرکاری سرپرستی اور وسائل کے ، از خود رضا کارانہ طور پر منائی جاتی ہے، جس میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے عام شہری خصوصاً خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب سے کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ ضیاء الحق شہید کا فرزند ہونے کے ناطے میری حیثیت مرکزی ہوتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مزار واقع فیصل مسجد اسلام آباد پر قرآن خوانی اور اجتماعی دُعا ہوتی ہے۔ اس کا مقصد جنرل ضیاء الحق اور اُن کے ساتھیوں کی عظیم قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُس عزم ، ارادے اور امنگوں کی تجدید بھی ہے کہ ہم پوری محنت اور لگن ، تن من دھن سے اپنے پاک وطن کی خدمت میں اُسی طرح مصروف اور مگن رہیں گے جس طرح جنرل ضیاء الحق اور اُن کے ساتھیوں نے اپنی پوری توانیاں صرف کیں اور جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ہم بھی اُن کی پیروی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
شہید صدر جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت ملی امنگوں کے عین مطابق قومی تعمیر و ترقی اور استحکام کے دور کے طور پر ملکی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ مقامِ افسوس ہے کہ اُن کی شہادت کے بعد ملک طرح طرح کے عذابوں سے گزر کر جان کنی کے عالم میں ہے۔ دیانتدارانہ سوچ اور بے لاگ تجزیئے کے بعد آپ بھی یقیناًمیری اس رائے سے اتفاق کریں گے۔ قوم ڈوب رہی ہے اور حکمران اس کو ساحل پر آئندہ کسی مستقبل بعید میں اُبھرنے والی روشنیوں اور رنگینیوں کے خواب دکھا رہے ہیں۔ لٹیروں نے پاکستان کو گوشت پوست سے محروم ایک پنجر اور ڈھانچہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری تمام حکومتیں شہدائے بہاولپور کے ساتھ انصاف نہیں کر سکیں اور اس قومی سانحہ کی تحقیق ، تفتیش کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوتی رہی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت کا احاطہ کرنے کے لئے کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں، مگر میں یہاں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کی سالمیت کو درپیش خطرے اور طوفان سے کس ہنر مندی ، عزم اور حوصلے کے ساتھ بچایا۔
بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی پاکستان کو سکھ بغاوت اور اپنی ماں اندرا گاندھی کے قتل کا ذمہ دار سمجھتا تھا۔ بد مستی میں اپنی ساری فوجیں اکٹھی کر کے پاکستانی سرحد پر چڑھ دوڑا ایک خوفناک جنگ ہمارے دروازے اور صرف ایک گولی چلنے کی دوری پر تھی۔ صدر ضیاء الحق نے ایک زیرک تنرویر کار Genius Strategist کی طرح Cricket Diplomacy کے ذریعے بازی اُس کے اوپر پلٹ دی اور آناً فاناً بھارتی سینا ٹانگوں میں دم دبائے تتر بتر ہو گئی۔ اس سلسلے میں راجیو گاندھی کے مشیر بہرا منام لکھتے ہیں ’’بھارت ساری فوج سرحد پر لگا چکا تھا۔ انڈیا کی فوج صرف اپنے وزیراعظم کے حکم کا انتظار کر رہی تھی۔ صدرر ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے بھارت کے دورے پر پہنچے تو راجیو گاندھی ضیاء سے ملنے پر تیار نہ تھا، مگر اُس کو ائیر پورٹ جانا پڑا۔ ایئرپورٹ پر جنرل ضیاء سے ہاتھ بھی سیدھے منہ نہ ملایا اور مجھے کہا کہ ضیاء کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھنے کو جاؤ۔ضیاء اتنے مضبوط اعصاب کا مالک تھا کہ مَیں نے ضیاء کی طرف دیکھا تو راجیو کے اس رویے کے باوجود ضیاء کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ راجیو کو خدا حافظ کہتے وقت ضیاء نے کہا مسٹر راجیو آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں بے شک کریں، لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ اس کے بعد لوگ چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائیں گے اور ضیاء الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھیں گے، کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہو گی، بلکہ یہ ایٹمی جنگ ہو گی۔ ممکنہ طور پر پورا پاکستان تباہ ہو جائے گا، لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں زندہ رہیں گے، کیونکہ بہت سے مسلمان ممالک ہیں، لیکن یاد رکھنا ہندوستان صرف ایک ہے اور میں دنیا سے ہندو مت کو ختم کر دوں گا اور اگر میرے پاکستان لوٹنے سے پہلے آپ نے پاکستانی بارڈر سے فوج ہٹانے کے لئے اپنی انڈین فوج کو آرڈر نہ دیئے تو پاکستان کی سرزمین پر جا کر میرے مُنہ سے جو سب سے پہلا لفظ نکلے گا وہ ہو گا ’’فائر‘‘۔
راجیو کا مشیر بہرا منام مزید لکھتا ہے کہ راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو چکے تھے اور میری ریڑھ کی ہڈی پر سنسناہٹ تھی۔ مجھے ضیاء اس وقت دُنیا کا سب سے خطرناک انسان نظر آیا۔ اُس کا چہرہ پتھر کا لگ رہا تھا۔ اُس کے الفاظ میں دہشت تھی اور اُس کی آنکھوں کو دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ یہ پورے برِصغیر کو ایٹم بم سے راکھ کر دے گا۔مَیں دہل کر رہ گیا۔ پلک جھپکتے ہی ضیاء کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی اور اُس نے کھڑے باقی لوگوں سے نہایت ہی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ میرے اور راجیو گاندھی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھاکہ بظاہر ہلکے پھلکے خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے ضیاء نے انڈین وزیراعظم کو کیا کہا۔
اس طرح اُنہوں نے سفارت کاری ، سیاست کاری،ریاست کاری تزویر کاری ، عسکری اور حربی صلاحیتوں کے تمام گُر اور اسرار و رموز استعمال کرتے ہوئے تدبر، حکمت اور حکمتِ عملی سے راجیو گاندھی کی بچھا ئی ہوئی بساط خود اُس پر پلٹ دی۔

مزید :

کالم -