شہید وطن : جنرل اختر عبدالرحمن خان
تحریر: احمد ندیم :
سوویت یونین کا زوال ، 20صدی کا محیر العقول واقعہ ہے ۔ عالمی دباؤ کے علی الرقم 1979ء میں جب سوویت یونین نے ہمسایہ ملک افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں تو عام خیال یہ تھا کہ اب سوویت یونین نکلنے والا نہیں ۔ کہا گیا کہ ابتر سیاست ، بیمار معیشت اور اپنی جغرافیائی مجبوریوں کے باعث ، افغانستا ن ، سپر پاور سوویت یونین کے لیے نسبتاً ایک آسان شکار ثابت ہو گا۔ امریکہ اور یورپ کے لیے ، سوویت یونین کا یہ اقدام ، وقتی طور پر صرف طاقت کے عالمی عدم توازن کا معاملہ تھا ، لیکن پاکستان نے بجا طور پر یہ سمجھا کہ سوویت یونین کی اس جارحیت سے مملکت خدا دا د پاکستان کو بھی سنگین خطرات لا حق ہوگئے ہیں، لیکن پاکستان نے بجا طور پر یہ سمجھا کہ سوویت یونین کی اس جارحیت سے مملکت خدا داد پاکستان کوبھی سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ مستحکم ہونے کی صورت میں اگلا ہدف پاکستان ہو گا۔
پاکستان کے لیے صرف دو ہی آپشنز تھے، ایک یہ کہ ، چپ چاپ ، سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور یورپ کی طرف سے جوابی حکمت عملی کا انتظار کرے ، دوسرا یہ کہ امریکہ اور یورپ کی طرف دیکھے بغیر اپنی حکمت عملی آپ وضع کرے ۔ یہ ہماری خوش بختی تھی کہ اس وقت ہماری اعلیٰ قیادت نے ایک آزاد اور خود مختار قوم کے شایان شان دوسرا راستہ چنا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے جب فوج کی اعلیٰ قیادت سے اس بارے میں رائے طلب کی تو یہ آئی ایس آئی کے چیف جنرل اختر عبدالرحمن تھے ، جنہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ایسی سٹرٹیجی وضع کی جاسکتی ہے کہ سوویت یونین ، افغانستان کے اندر ہی زخم چاٹنے پر مجبور ہو جائے ۔ جنرل اختر عبدالرحمن نے اپنے پلان کی تفصیلات بیان کیں۔ خوب سوچ بچار کے بعد ، جنرل ضیاء الحق نے آخر کار جنرل اختر عبدالرحمن کو اپنا منصوبہ بروئے کار لانے کا ٹاسک دیا۔
یہ مشکل ترین ہدف تھا کیونکہ افغان قوم میں اتحاد نام کی چیز بالکل ناپید تھی ۔ سردار ، سردار سے اور قبیلہ قبیلے سے محاز آرا تھے ۔ افغان قوم کو متحد قوت کے طور پر سوویت یونین کے خلاف آمادہ جنگ کرنا کارے دارد تھا۔ آئی ایس آئی چیف کو اس بات کا اہتمام بھی کرنا تھا کہ پاکستان کو اس جنگ میں براہ راست ملوث نہ سمجھا جائے یعنی نہ پاکستان کی افرا دی قوت ، نہ پاکستان کا اسلحہ ، ادھر امریکہ ابھی تک تذبذب کا شکا ر تھا۔ امریکہ اور سی آئی اے کے لیے یہ بات سمجھنا آسان نہیں تھا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں مجاہدین کار آمد ثابت ہو سکتے ہیںیا مجاہدین کی مدد سے یہ خوف ناک جنگ واقعی جیتی جا سکتی ہے، اس لیے امریکہ کی طرف سے ابھی مالی امداد کا سوال ہی نہیں تھا۔ یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ امریکہ اس جنگ میں اس وقت کودا جب پاکستان کی فوجی قیادت نے اللہ کا نام لے کر سوویت یونین کی ہیبت کو للکار نے کا فیصلہ کر لیا تھا مجاہدین میدان جنگ میں نکل آئے تھے اور سوویت یونین کی فوجوں کو زمین اپنے پاؤں تلے سے سرکتی محسوس ہونے لگی تھی ۔ تقریباً ایک سال بعد امریکہ کی ریگن انتظامیہ نے پاکستان کی مالی امدا کا اعلان کیا تو جنرل ضیاء الحق نے اس کو معمولی اور حقیر قرار دے کر ٹھکرا دیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان اس جنگ کو صرف اور صرف دفاع وطن کی جنگ سمجھ کر لڑ رہا ہے ۔ اس کے باوجود جو لوگ یہ اصرار کرتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان اپنی نہیں، امریکہ کی جنگ لڑ رہا تھا اور و ہ بھی صرف مالی منفعت کے لیے ، ان کی اس ذہنیت پر افسوس ہی کیا سکتا ہے ، کیونکہ بے دلیل دعویٰ ہے ۔
جنرل اختر عبدالرحمن نے کمال جنگی مہارت سے ، سوویت یونین کے خلاف افغان قوم کی بکھری ہوئی قوت کو مجتمع کیا اور تھوڑے عرصے میں وہ معجزہ انجام دے دیا کہ دنیا ورطہ ء حیرت میں ڈوب گئی۔ افغان مجاہدین نے سوویت یونین کی فوجوں کے قدم ڈگمگا دیئے ۔ سوویت یونین کے خلاف ،جب جنگ افغانستان نے کامیابی کی منزل کو چھو لیا تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن خان ، جو اس وقت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف کمیٹی کے طور پر کام کر رہے تھے ، کی رائے تھی کہ جنیوا معاہدے پردستخط کرنے سے پہلے افغانستان میں مستحکم حکومت کا قیام یقینی بنایا جائے اور امریکہ کو اس کے لیے مجبور کیا جائے ۔ آج امریکہ کی وزیر خارجہ (موجودہ صدارتی امیدوار) ہیلری کلنٹن تسلیم کر رہی ہیں کہ 1988ء میں افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کے معاملے کو نظر انداز کرنا ، امریکہ کی غلطی تھی ۔ یہ حقیقت اب آشکار ا ہے کہ اگر اس مرحلے پر جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن خان کے اس مطالبے کی روح کو سمجھ لیا جاتا تو بعد میں سر ز مین افغانستان پر جو انتشار برپا ہوا ، اس سے بچا جا سکتا تھا۔
محمد خان جونیجو کی حکومت نے معاملے کے اس پہلو کو نہیں سمجھا یا بالکل نظر انداز کر دیا ۔ محمد خان جونیجو کا خیال تھا کہ اگر اس مرحلے پر انہوں نے جنیوا سمجھوتے پر دستخط نہ کیے ، تو امریکہ ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کے ساتھ ساتھ جونیجو خان حکومت سے بھی ناراض ہو جائے گا۔ جس سے ان کی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ محمد خان جونیجو نے جنیوا سمجھوتے پرفوراً دستخط کرنے کے لیے گول میز کانفرنس طلب کر لی۔ بے نظیر بھٹو ، جو اس وقت جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی سخت ترین ناقد تھیں اورجنیواسمجھوتے پر دستخط کرنے کی حامی سمجھی جاتی تھیں ، محمد خان جونیجو نے انہیں خاص طور پر مد عو کیا۔ اس طرح جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی رائے کے خلاف افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کامطالبہ منوائے بغیر جنیوا سمجھوتے پر عجلت میں دستخط کر دیئے گئے۔ جنیوا سمجھوتے پر دستخط ہونے کے فوراً بعد ایک بین الاقوامی سازش کے تحت پہلے اپریل 1988ء کو اوجڑی کیمپ کو دھماکے سے اڑا دیا گیا بعد میں 17اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق اور ان کے دست راست جنرل اختر عبدالرحمن خان کو قریبی ساتھیوں سمیت شہید کر ا دیا گیا۔
سوویت یونین کے خلاف جنگ میں جنرل اختر عبدالرحمن خان نے تجربے سے یہ سمجھ لیا تھا کہ افغانستان میں ’’فیورٹ ازم ‘‘ سے پاک پالیسی ہی پاکستان کے لیے مفید ، مناسب اور موزوں ہے ۔ جنرل اختر عبدالرحمن خان کی شہادت کے بعد، پاکستان کے ارباب اقتدار نے افغانستان کے بارے میں اس زریں اصول کو بھی فراموش کر دیا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو حکومتوں نے اس کے برعکس افغانستان میں فیورٹ ازم کی پالیسی کو آگے بڑھایا ۔ نتیجتاً افغانستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو افغانستان سے شکایات پید ا ہوتی رہیں۔ صبغت اللہ مجددی سے لے کر طالبان تک اور طالبان سے لے کر موجودہ حکومت تک صورت حال خراب تر ہوتی چلی گئی ۔ اب حال یہ ہے کہ وہ پاک افغان سر حد ، جو شہیدان وطن، جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن نے بالکل محفوظ بنا دی تھی، اب پاک بھارت سر حد سے بھی زیادہ خطر ناک سمجھی جا رہی ہے ۔