نظرثانی درخواستیں دائر، اب تبصروں سے پرہیز کریں، سیاسی ماحول گرم ہے
ملک میں سیاسی سرگرمیاں تیز تر ہوتی چلی جا رہی ہیں، اسمبلیوں کی مدت اگلے سال پوری ہونا ہے اور یوں انتخابات میں قریباً ایک سال باقی ہے لیکن یہاں یہ احساس ہونے لگا کہ شاید یہ وقت آ پہنچا ہے، حالانکہ ہمارے خیال میں ایسا نہیں اور اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت مکمل ہی ہوگی اور قبل از وقت انتخابات کا کوئی امکان نہیں اگرچہ تحریک انصاف کی توخواہش یہی ہے کہ انتخابات کل ہوتے آج ہو جائیں کہ ان کو اپنی مقبولیت کا زعم ہے۔ اس کا ایک اندازہ تو اب حلقہ این اے 120کے ضمنی انتخابات سے ہو جائے گا۔ اس حلقہ سے ہر دو جماعتوں کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی بھی مقابلہ میں ہے اور دیگر جماعتوں نے بھی امیدوار میدان میں اتارے ہیں ان میں ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی اور نو تشکیل جماعت ملی مسلم لیگ بھی شامل ہے جو ابھی رجسٹر بھی نہیں ہوئی اور ’’آزاد امیدوار‘‘ کے ساتھ جلدی جلدی میدان میں اُتر آئی ہے معلوم نہیں اسے جلدی کیا ہے اور اُن کے بغیر انتخابی سیاست کے کون سے کام بند ہیں؟یہ جماعت دینی اور فلاحی تنظیم جماعت الدعوٰۃ کا سیاسی ونگ ہے کہ حافظ سعید نظر بند ہیں ان کی نظر بندی میں توسیع ہوتی رہتی ہے۔ اسی امر کے پیش نظریہ جماعت تشکیل دی گئی اور یہ لوگ بھی پوچھ رہے ہیں، ’’حافظ سعید کا قصور کیا ہے؟‘‘
ذکر سیاسی ماحول کا تھا تاہم اس حلقے میں چونکہ مقابلہ جاری ہے اس لئے ذکر لازم ہو گیاکہ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز مسلم لیگ (ن) کی امیدوار ہیں اور بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فتح اور قومی اسمبلی کا رکن بن جانے کی صورت میں وہ وزیراعظم بھی ہو سکتی ہیں اگر ان کے شوہر محمد نوازشریف کی نااہلیت برقرار رہی تو؟ جہاں تک سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کا تعلق ہے تو سیاست میں گرما گرمی ان کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے آئی کہ انہوں نے نہ صرف جی ٹی روڈ سے واپسی کا سفر کیا بلکہ جماعت کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یہ بھی طے کر لیاکہ رابطہ عوام کی مہم جاری رکھیں گے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم تو نہیں کیا، تاہم اس پر عمل کرتے ہوئے ایوان وزیراعظم خالی کرکے عہدہ چھوڑ دیا ہے، اب ان کی طرف سے نظرثانی کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں، ہماری دانست میں تو ان درخواستوں کے دائر ہو جانے کے بعد ’’نااہلی‘‘ والا معاملہ تو ’’سب جوڈیس‘‘ ہو گیا (پھر سے) اس لئے اس پر بحث نہیں ہونا چاہیے لیکن اس پرکسی نے عمل نہیں کیا اور نہ ہی عدالت نے خود کوئی نوٹس لیا،حالانکہ عدالتی کارروائی جس انداز سے رپورٹ ہوتی رہی اور جس جس طرح فریقین نے باہر آکر عدالتیں لگائیں وہ بھی کسی طور پسندیدہ نہیں تھا جہاں تک فیصلے کے بعد کا تعلق ہے تو خود سابق وزیراعظم محمد نوازشریف اور ان کے رفقاء نے اس پر تنقید کی اور اب نظرثانی کی درخواستیں دائر کر دی ہیں ہمارے نزدیک فیصلے پر رائے نیک نیتی سے دی جا سکتی ہے۔ تاہم جو انداز اختیار کیاگیا وہ مناسب نہیں لگا کہ اب درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ مسئلہ بھی اٹھایا جائے گا۔ بہرحال ہماری خواہش اور درخواست تو یہ ہے کہ اب ایسا نہ کیا جائے۔ حوصلے سے درخواستوں کی سماعت اور پھر فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ جہاں تک فاضل عدالت عظمیٰ کا تعلق ہے تو فاضل عدالت کو بھی نوٹس لینا ہوگا اور خود بھی دیکھنا ہو گا کہ ریمارکس کیسے ہوں کہ اشاعت و نشریات بھی انہی پر منحصر ہوں گی۔ ہم ہر صورت احتیاط کرتے ہیں اگرچہ فیصلے کے حوالے سے فریقین نے جس جس انداز سے تبصرے کئے ان پر بات کی جا سکتی تھی۔ چلئے پھر سہی۔
آج ہم حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب کی بات کر لیتے ہیں۔یہ حلقہ مسلم لیگ (ن) کا جیتا ہوا ہے اور اب بھی سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے ہی یہ نشست خالی کی ہے، اس لئے یہاں مسلم لیگ (ن) کو برتری حاصل تو ہے لیکن تحریک انصاف یہاں بہت متحرک ہے کہ سابقہ امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد ہی اب پھر امیدوار ہیں اور کئی روز سے ’’ڈور ٹو ڈور‘‘ مہم چلا رہی ہیں یوں مقابلہ سخت ہوگا، پیپلزپارٹی نے بھی میدان خالی چھوڑنا گوارا نہیں کیا، فیصل میر میدان میں ہیں اور پیپلزپارٹی پھر سے سرگرم اور بہتر پوزیشن بنانے کی فکر میں ہے۔ بلاول جلسے کریں گے تو آصف علی زرداری لاہور آ گئے یہاں سیاست کریں گے، جوڑ توڑ اور رہنمائی کا فریضہ ادا ہوگا، اگرچہ ایک مہم کے طور پر آصف علی زرداری کو نکو بنا کر یہ کہا جا رہاہے کہ ان کی موجودگی پارٹی اور بلاول کے لئے نقصان کا باعث ہے اور ان کو پس منظر میں چلے جانا چاہیے لیکن وہ اور پارٹی قیادت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی اور بلاول نے بھی تو کہاکہ 2018ء میں وہ اور آصف علی زرداری دونوں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑیں گے اور قومی اسمبلی میں ہوں گے وہ تو حکومت بنانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں(وزیراعظم والد ہوں گے یا صاحبزادے؟ معلوم نہیں) یوں باپ بیٹا بھی راضی ہیں اس لئے اب اس مسئلہ کو بھی نظر انداز کر دینا چاہیے اور دیکھنا ہوگا کہ پیپلزپارٹی کس طرح اپنی بحالی کی طرف بڑھتی ہے۔ اس کا کچھ اندازہ ضمنی انتخاب سے بھی ہوگا ۔۔۔بیگم کلثوم نواز تو آج ہی ایک امتحان سے گزریں گی کہ ان کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض ہیں، ان کی سماعت ہو گی، کاغذات درست ہو گئے تو ٹھیک ورنہ ایک نئی عدالتی اور قانونی جنگ شروع ہو گی۔ بہرحال اپیل میں تو فریقین نے جانا ہی ہے۔ ریٹرننگ افسر کا فیصلہ جو بھی ہو، قارئین! آج کل ایک مسئلہ آئینی ترامیم اور نئے عمرانی معاہدے کا بھی ہے، اس پر بات کرنا تھی، اب پھر سہی!