فیصلہ عوام کریں گے؟
ہرچند کہ امریکہ کے مقتدر اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اقتدار سے برطرفی کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اسلام آباد سے رخصتی کو فاتحانہ سفر قرار دیا، لیکن جی ٹی روڈ ریلی کے دوران ملنے والی پُرجوش عوامی پذیرائی خود نواز شریف کی سوچوں کو مربوط بنانے کی بجائے ایک ہیجان انگیز تصادم کی طرف دھکیلتی نظر آتی ہے،یہ پوری سرگرمی ایک ایساجوابی بیانیہ ہے، جس کی ابتداء 2014 ء میں ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں کی گونج میں طاہر القادری اور عمران خان کے لانگ مارچ، دھرنوں اور لاک ڈاون کی ان تحریکیوں سے ہوئی،جنہوں نے پورے چار سال تک معاشرے کو سیاسی پولرائزیشن میں مبتلا رکھا۔ جی ٹی روڈ ریلی اسی طویل جدلیات کا فطری ردعمل اور مخالفانہ سیاست کا جوابی بیانیہ ہے،جس پر اعتراض اٹھانے والے دراصل خود ہی اس کے اصلی محرک ہیں،اگر اپوزیشن نے ریاستی اداروں کی حمایت کے تاثر کے ساتھ عدالتوں کی مدد سے نواز شریف کو ایوان اقتدار سے نکالنے کا ہدف حاصل نہ کیا ہوتا تو آج متاثرہ فریق سڑکوں پر آ کر مقتدر اداروں کو ہدف تنقید بنانے پر مجبور نہ ہوتے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ریاستی ادارے پس چلمن رہ کر قومی امور میں فیصلہ سازی کے اختیار کو تو اپنے ہاتھ میں رکھیں اور مصنوعی محاذ آرائی کے ماحول میں عدالتی عمل کے ذریعے منتخب سیاسی حکومتوں کو برطرف کر کے خود اپنے لئے جوابی تنقید کی سنگ زنی اور کسی بھی فورم پر جوابدہی کے وبال سے استثنامانگیں، لاریب ،سیاست کے بے رحم نظام میں ایسی معصوم آرزوں کو زیادہ دیر تک پذیرائی نہیں ملتی۔’’گو نواز گو‘‘ کی منزل حاصل کرنے والوں کو اب ذرا حوصلے سے کام لینا ہو گا،کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اس کا ردعمل یہی آنا تھا؟جو جی ٹی روڈ پر نظر آیا !
ہمارے ان ارباب بست کشاد کے لئے لازمی ہے کہ نوازشریف کی برطرفی سے اٹھنے والے جذبات کے اس سیل رواں سے ٹکرانے کی بجائے اسے قومی سیاسی دھارے کا جز بنانے کی تدبیر کریں، اگر اس جوش و خروش کی ناقدری اور تضحیک کی روش اپنائی گئی تو اس زبردست سرگرمی کے اثرات ملکی سلامتی کے لئے تباہ کن ثابت ہوں گے۔اگرچہ روایتی تصورات کی اسیر ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے جمود پرور خیالات کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہو گی، کیونکہ مدت سے وہ فیصلہ سازی اور سیاسی سرگرمی کو اپنی مٹھی میں بند رکھنے کے باوجود کسی موثر جوابی ردعمل یا جوابدہی کے احساس سے ماورا رہی ہے، لیکن اب اس تھکا دینے والی اور ناشائستہ کشمکش کے بعد بپھرا ہوا معاشرہ ان لوگوں کے حقائق کو تسلیم کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف کی برطرفی کے بعد ہماری اجتماعی حیات ایک خطرنک موڑ مڑ گئی ہے،جہاں سے اس معاشرے کا ایک موثر طبقہ ریاستی اداروں کے ساتھ فیصلہ کن تصادم کی طرف بڑھنے کی تیاری کر رہا ہے۔یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے، جس کا سامنا ہمارے معاشرے نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ ماضی میں اپوزیشن جماعتوں اور معتوب سیاسی رہنماوں نے عالمی حالات کی نزاکتوں سے صرف نظر کر کے کسی جامع منصوبہ بندی اور واضح سیاسی اہداف کے بغیر مزاحمتی تحریکیں چلاکر ہزیمت اٹھائی، لیکن اس بار حکمران جماعت کے ایک ایسے لیڈر آئین کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کی جدوجہد کا علم لے کر اٹھے ہیں، جنہیں عالمی تعلقات کی نزاکتوں کا ادارک اور علاقائی طاقتوں کے مفادات سے ہم آہنگ رہنے کا شعور حاصل ہے اور جسے بے پناہ عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔آبادی کے لحاظ سے بڑے صوبے پنجاب کے علاوہ انتہائی حساس صوبہ بلوچستان اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کی ریاستی حکومتیں غیرمشروط طور پر سابق وزیراعظم کے ایجنڈے کی حامی ہیں۔
حیرت انگیز طور پر نواز شریف نے اپنی برطرفی کے بعد پہلی مزاحمتی ریلی کے دوران عالمی سازشوں کا رونا رویا، نہ داخلی سیاسی بحران کو سی پیک کی تعمیر کا شاخسانہ باور کرانے کی کوشش کی،انہوں نے اپنی تنقید کا دائرہ اندرونی قوتوں تک محدود رکھ کر قومی سیاست کو عالمی طاقتوں کی سیاسی کشمکش کا حصہ بنانے سے گریز کیا، یہی طرز عمل ان کی سیاسی بصیرت اور حب الوطنی کا مظہر تھا۔ بہرحال ان نئے راستوں پر گام فرسائی میں ان کے لئے کامیابی کے امکانات کم سہی، لیکن حالات کا جبر طاقتوروں کے امتحان کے اسباب مہیا ضرور کر دے گا۔ہمارے لئے اس کیفیت کو سمجھنا تو مشکل ہوگا کہ نواز شریف نے جی ٹی روڈ پر آنے کا فیصلہ کس ارادے سے کیا؟ لیکن اس سفر کے دوران رونما ہونے والے حالات پرا ن کا تبصرہ کافی حد تک قابل فہم اور ان کے سیاسی عزائم کی غماضی کرتا ہے۔بلاشبہ اس پیش دستی سے نواز شریف نے عوامی حمایت کے خروش میں اپنے بیانیہ کو قومی سیاست کا محور بنا لینے کے علاوہ اپنی جماعت اور اپنے خاندان کے سیاسی مستقبل کو بڑی حد تک محفوظ کر لیا،اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کے مخا لفین عدالتی فعالیت کو بروئے کار لا کر انہیں تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دیتے، لیکن نواز شریف نے جارحانہ طرز سیاست کو اپنا دفاع بنا کر ایک خطرناک، مگر اچھی چال چلی ہے۔ عبرانی کہاوت ہے کہ ۔۔۔ ’’تقدیر ہمشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے‘‘۔۔۔ کیاِ تقدیر ایک بپھرے ہوئے ہجوم کی شکل میں ان کی محافظ بن گئی ہے ؟ یہ سمجھنا تو ابھی ممکن نہیں، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ وزیراعظم کی برطرفی کے متنازعہ عدالتی فیصلے کے خلاف اٹھنے والے پرجوش عوامی ردعمل نے ملک میں مارشل کے امکانات کو محدود اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو اس صدمے اور غیر ضروری سیاسی دباؤ سے نکال لیا جو نوازشریف کی ناگہاں برطرفی کے بعد میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کی چومکھی یلغار کے بعد ایوان اقتدار پر حاوی ہو گیا تھا۔نواز شریف کی یہی دلیرانہ مزاحمت یا تو ہمارے انحطاط پذیر نظام زندگی میں کلیت پیدا کر دے گی یا پھر بے رحم تقدیر ہمیں ان نامطلوب تبدیلیوں کا مزہ چکھائے گی جن کے مہیب مناظر ہم شام اور عراق میں دیکھ رہے ہیں۔
سسرو کہتے ہیں۔۔۔زندگی میں تبدیلیاں ارادی نہیں،بلکہ اچانک واقع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات بے وفا تقدیر ظاہری طورپر غیر مربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھا کر ان کی مرضی کے بغیر انہیں اَن دیکھی تباہی سے دوچار کر دیتی ہے۔اگرچہ جمہوریت ہی وہ مہربان دیوی ہے جو عقل اجتماعی سے پرامن اور منظم اصلاحات کو راہ دکھاتی ہے اور منتخب سیاستدان پالیسیوں میں تسلسل اور اصلاحات کے عمل کی وکالت کرتے ہیں، لیکن اس کے برعکس فطرت ایک خاموش بہاؤ کے ساتھ فرسودہ اور غیرلچکدار اداروں کی تطہیر کے لئے تشدد کی ضرورت و اہمیت کو بڑھاتی رہتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں ہمارے ارباب اختیار نظم و ضبط اور اصلاحات کے تدریجی عمل کو اپنانے کی راہ نکالتے ہیں یا پھر سارے معاملات کو فطرت کی جراحی کے حوالے کرادیتے ہیں؟۔۔۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ ہمارے ابنائے سیاست جو قانون کو ناجائز اہمیت دیتے ہیں، وہ عمرانی تصادم اور کشمکش کے زندہ تغیرات کی حدت میں جلنے کو تیار ہو چکے ہیں۔کیا وزیراعظم کی برطرفی کے فیصلے کے خلاف عوامی ردعمل اس مہیب عدالتی پیش قدمی کو متوازن بنا دے گا جو پچھلے ستر برسوں سے منتخب حکومتوں کو مفلوج اور سیاسی نظام کو بتدریج تحلیل کرتی چلی آئی ہے۔ہمارے خیال میں اس بہاؤ کو روکنا اتنا آسان نہیں ہو گا،اس لئے ایک سیاسی تصادم نا گزیر ہو چکا ہے، لیکن خدشہ ہے کہ یہ کشمکش اندرونی خلفشار کو بڑھا کر ہمیں بیرونی خطرات سے دوچار کر دے گی۔اس امر کا اندازہ لگانا ابھی ممکن نہیں کہ حالات کا جبر ملت کے سفینے کو کس سمت لے جائے لگا، لیکن نواز شریف کا سیاسی سفر اس رائے عامہ کو اپنی طرف موڑنے میں کامیاب دکھائی دیتا ہے جو سیاسی طاقت کا موثر وسیلہ سمجھی جاتی ہے۔ بلاشبہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے سیاست دانوں کی طاقت کا سر چشمہ عوامی حمایت میں پوشیدہ ہوتا ہے اور وہ معاشرے کو موبلائز کر کے عوامی طاقت کے ذ۱ ریعے ہی اپنی بقاء کو یقینی اور سیاسی مقاصد کے حصول کی بے ضرر اور درست راہ عمل بناتے ہیں۔