سانحہ ماڈل ٹاؤن ، اہم حقائق جنہیں عوامی تحریک نے مسلسل نظر انداز کیا
لاہور ( مانیٹرنگ ڈیسک228 ایجنسیاں )سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے اہم حقائق منظر عام پر آگئے ہیں جنہیں عوامی تحریک کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے عوامی تحریک نے عدالتی کارروائی میں بھی حصہ نہیں لیا،سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت 28پولیس ملازمین شدید زخمی ہوئے جبکہ ایک پولیس اہلکار محمد شریف کو ادارے کے کارکنوں نے اغوا کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران اب تک استغاثہ کے لئے کل 92 پیشیاں مقرر ہوئیں جن میں سے 47 پیشیوں پر ادا القرآن کے گواہ پیش نہیں ہوئے اور کارروائی استغاثہ ا بنا پرملتوی ہوئی۔ اس طرح استغاثہ میں تاخیر کی تمام تر ذمہ داری منہاج القرآن پر عائد ہوتی ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد 17۔06۔2014 کو تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن نشتر ٹاؤن لاہور اور پولیس نے ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش کے اردگرد تجاوزات ہٹانے کے لئے کارروائی کی۔ اس کارروائی کے دوران شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہوا اس وقوعہ کی بابت انسپکٹر رضوان قادر ایس ایچ او کی مدعیت میں سرکار نے مقدمہ نمبر 510/2014 ، 17۔06۔2014 کو بجرم 148, 353, 291, 290, 324, 34, 302, 186, 149 ت پ 7۔ATA تھانہ فیصل ٹاؤن درج کرایا۔وقوعہ ہذا کے دوران 28 پولیس ملازمین شدید مضروب ہوئے جن میں سے 2 اسلحہ آتشیں سے مضروب ہوئے محمد شریف اے ایس آئی کوادارے کے کارکنوں نے اغوا کرکے شدید مضروب کیا۔ڈاکٹر عارف مشتاق اے آئی جی کی سربراہی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بشمول ارکان آئی ایس آئی اور آئی بی نے مقدمہ کی تفتیش کی ادارہ منہاج القرآن کے ملازمینارکان کو شامل تفتیش ہونے کے لئے متعدد بار طلب کیا گیا لیکن وہ شامل تفتیش نہ ہوئے۔ دوران تفتیش9 پولیس ملازمین اور42 ملزم ادارہ منہاج القرآن سے گنہگار پائے گئے۔اس حوالے ے28اگست2014 کو چالان مجاز عدالت میں جمع کرایا گیااور 20اکتوبر 2015کو فرد جرم عائد ہوئی۔ پراسیکیوشن نے 40گواہوں کی شہادت قلمبند کرائی اس دوران ملزم التوا حاصل کرتے رہے۔ تاحال 9 چشم دید گواہوں پر جرح کونسل ادارہ منہاج القرآن کی جانب سے نہیں کی گئی ۔ اس وجہ سے مقدمہ کی کارروائی آگے نہ بڑھی۔اسی طرح تھانہ فیصل ٹاؤن میں عوامی تحریک کی جانب سے مقدمہ نمبر 696/14 برخلاف سرکاری عہدیدار28اگست 2014ء کو محمد جواد حامد، ڈائریکٹر ایڈمن ادارہ منہاج القرآن کی مدعیت میں درج رجسٹر ہواجس میں 24ملزم نامزد ہوئے۔ عبدالرزاق چیمہ ڈی آئی جی کی سربراہی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بشمول ارکان آئی ایس آئی اور آئی بی نے مقدمہ کی تفتیش کی عوامی تحریک کی جانب سے کوئی بھی شامل تفتیش نہ ہوا۔ بمطابق تفتیش 10 اشخاص قتل جبکہ 54 مضروب ہوئے۔ بعد تفتیش 6 پولیس ملازمین اور 42 پی اے ٹی ورکرز گنہگار پائے گئے، چالان کئے گئے۔ اس حوالے سے 19دسمبر2014 کو فرد جرم عائد ہوئی اور اس میں 21 گواہوں کی شہادت قلمبند ہوئی۔اس کے بعد عوامی تحریک کی جانب سے15مارچ 2016ء کو 1 سے 9 ماہ کی تاخیر سے عدالت میں ڈائریکٹ کمپلینٹ برخلاف 139 کس افراد کے خلاف دائر کی۔ نور الہٰی کیس کی روشنی میں عدالت نے چالان پر کارروائی روک دی گئی اور کمپلینٹ پر کارروائی شروع کردی۔عوامی تحریک کی جانب سے دائر مقدمہ139 ملزموں میں سے ملزم 1 تا 12 جن میں سابق وزیراعظم، موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب شامل تھے کو عدالت نے بے گناہ سمجھتے ہوئے طلب نہ کرنے کا حکم صاد کیا جبکہ دیگر ملزم جن میں اس وقت کے آئی جی پولیس شامل ہیں کو طلب کیا اور وہ عدالت میں مقدمہ کا سامنا کررہے ہیں۔ 08۔11۔2016 تک (قریباً 8ماہ) مستغیث سے استغاثہ میں 57 سرسری گواہہوں کی شہادت قلمبند کرائی۔ بعدازاں مقدمہ کو التوا میں ڈالنے کے لئے مستغیث نے درخواست زیر دفعہ 94 ض ف برائے طلبی رپورٹ جوڈیشل کمیشن ٹرائل کورٹ میں دائر کی جو کہ خارج ہوئی جس کے خلاف مستغیث جواد حامد / ادارہ منہاج القرآن نے رٹ پٹیشن عدالت عالیہ لاہور ہائی کورٹ لاہور میں دائر کی جو 15۔12۔2016 کو خارج ہوئی۔
عوامی تحریک۔حقائق
Bac