پولیس اور انتظامیہ ہر 6ہفتے بعد بچوں سے بداخلاقی و قتل کی رپورٹ پیش کریں: سینیٹ کمیٹی انسانی حقوق

پولیس اور انتظامیہ ہر 6ہفتے بعد بچوں سے بداخلاقی و قتل کی رپورٹ پیش کریں: ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد(آن لائن) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے پولیس و انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہر چھ ہفتے کے بعد بچوں سے زیا د تی اور قتل کے کیسز کے بارے میں کمیٹی کو رپورٹ پیش کریں، قائمہ کمیٹی کے بدھ کو ہونیوالے اجلاس کی صدارت سینیٹر محمد محسن خان لغاری نے کی، گزشتہ سال ضلع قصور میں بچوں سے زیادتی اور ویڈیو فلم بنانے کے واقعے کے بعد سینیٹ کمیٹی کو بتایا گیا کہ قصور میں اس طرح کے کیسز کی مکمل نگرانی اور انہیں روکنے کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں، پولیس انتظامیہ نے کمیٹی کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ تین سال کے دوران74کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے بچوں کیساتھ زیادتی اور قتل کے 5مجرم پکڑے گئے اور 7مجرم زیر تفتیش ہیں، سال17ء میں ضلع قصور میں دو چھوٹے بچوں کیساتھ زیادتی کے کیسز سامنے آئے، آئی جی پنجاب نے سینیٹ کمیٹی کو تجویز پیش کی کہ اس سلسلے میں عوام میں آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے سرکاری میڈیا اور دیگر ذرائع کے ذریعے بچوں سے زیادتی کے کیسز کو روکنے میں مدد ملے گی، سینیٹر ثمینہ عابد نے سوال کیا کہ ایسے واقعات خصوص ضلع قصور میں کیوں ہو رہے ہیں، اس سلسلے میں انتظامیہ کیا اقدامات کر رہی ہے، جس پر آئی جی پنجاب نے بتایا گزشتہ سال میڈیا رپورٹ کے بعد پولیس اور دیگر ادارے ملکر کام کر رہے ہیں، قصور کے علاوہ ضلع شیخو پو ر ہ اور ننکاہ صاحب میں بھی بچوں سے زیادتی کے واقعات سامنے آئے ہیں، پولیس ایسے علاقوں کی نگرانی کر رہی ہے اور 37کیسز کے مجرموں کو سزاکے بعد جیل منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ24کیسز کی تفتیش جاری ہے، 5چھوٹی بچوں سے زیادتی اور قتل کے کیسز میں سے 2 کیسز کے مجرموں کو سزا ہوئی جبکہ3کی تفتیش جاری ہے، قصور کے تین مختلف پولیس اسٹیشن کے اندر ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں سی سی ٹی وی کیمرا اور پولیس کی نگرانی شروع کر دی گئی ہے، انہوں نے تجویز دی کہ تعلیمی نصاب میں جنسی آگہی تعلیم دی جائے اور بچیوں کے ساتھ زیادتی واردات کو روکنے میں مدد ملے گی، کمیٹی کے ارکان نے تجویز دی کہ انسانی حقوق کی وزارت اور انسانی حقوق کا کمیشن اس پر باقاعدہ رپورٹ پیش کرے اور سینیٹ کی کمیٹی بھی ضلع قصور سے دورہ کرے اور عوام سے براہ راست رابطہ مہم چلائی جائے۔

مزید :

صفحہ آخر -