قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 44

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 44
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 44

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زندگی میں ہر انسان کی کچھ حسرتیں ہوتی ہیں اور اگر کبھی قدرت انہیں پورا کرتی ہے تو بڑی شان سے کرتی ہے۔ بچپن میں فلم اور گرامو فون ریکارڈوں کے حوالے سے میری کچھ تمنائیں ہوتی تھیں۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں اچھے شعر کہوں اور میرا کلام سہگل گائے۔ یا پھر میرا کلام سریندر گائے۔ اس کا ایک گانا تھا:
یاد نہ کر دل حزیں بھولی ہوئی کہانیاں
یہ گانا سپر ہٹ تھا اور جگہ جگہ نوجوان گاتے تھے۔ اس لئے تمناتھی کہ سریندر میرا کلام گائے۔ اس کے علاوہ قوالوں میں محمد علی فریدی کے ریکارڈ میرے پاس تھے۔ یہ ہری پور کے نزدیکی گاؤں شاہ محمد میں اپنے کسی جاننے والے دوست کے پاس آیا کرتے تھے اور وہاں گانے کی محفل ہوتی تھی۔ میں ان کی آواز کا بڑا عاشق تھا اور جی چاہتا تھا کہ ان کے ساتھ کوئی ایسا سمبندھ ہو کہ یہ میری کوئی چیز گادیں۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 43  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان گلوکاروں کے علاوہ میرے ذہن میں دو میوزک ڈائریکٹر مدن موہن اور سی رام چندرا بھی تھے جن کے بارے میں ذہن میں یہ خواہش تھی کہ یہ میرے گیتوں کی دھن بنائیں ۔ یہ میری شروع کی تمنائیں تھیں۔ اب دیکھئے کہ قدرت کیسے ان تمناؤں کے پورے ہونے کا وقت لاتی ہے۔ لیکن اس مرحلہ پر بھی ہوتا کیا ہے۔
چند سال پہلے میں انگلینڈ گیا تو میں وہاں اپنے ایک بیٹے اور ایک دوست سوہن راہی کے ساتھ بیٹھا تھا تو ایک فون آیا۔ فون کرنے والے نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا ’’ مرا نام سی رام چند را ہے۔ شاید آپ مجھے جانتے ہوں ‘‘
مجھے توقع نہیں ہوسکتی تھی کہ اتنا بڑا میوزک ڈائریکٹر خود مجھے فون کر سکتا ہے۔ اس لئے میں نے کہا ’’ میں ایک رام چندرا کو جانتا ہوں جو بہت مشہور میوزک ڈائریکٹر ہیں۔ اگر آپ وہ ہیں تو آپ کو کون نہیں جانتا لیکن اگر آپ کوئی اور ہیں تو پھر اپنا تعارف کروا دیجئے‘‘
وہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے ’’ میں وہی ہوں۔ دراصل آپ جب پچھلی بار بمبئی آئے تھے تو مجھے آپ کے آنے کا دیر سے پتا چلا تھا۔ آپ کا ایڈریس معلوم نہیں تھا۔پھر وہاں ایک سندھ کے ہندوار جن داسمانی تھے مجھے پتا چلا کہ ان کے پاس آپ کا کلام ہے ۔ میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ انڈیا میں میرے سوا اور کوئی قتیل صاحب کا کلام استعمال نہیں کر سکتا‘‘
انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’کیا یہ بات ٹھیک ہے ‘‘
میں نے کہا ’’ یہ بات ٹھیک تو نہیں ہے‘‘ خیر مجھے کہنے لگے ’’ آج میں شام کی فلائٹ سے جا رہا ہوں اور اب مجھے پتا چلا ہے کہ آپ یہاں ہیں‘ اس لئے آپ اپنے صاحب خانہ سے کہیے کہ وہ مجھے ایڈریس سمجھا دیں اور میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں‘‘
میرے لئے تو یہی کافی تھا کہ میں جسے چاہتا ہوں وہ میوزک ڈائریکٹر مجھ سے ہمکلام تھا۔ اس لئے میں نے کہا ’’ یہ نہیں ہو گا بلکہ آپ اپنا ایڈریس بتائیے میں آپ کے پاس پہنچتا ہوں ‘‘ انہوں نے ایڈریس بتایا اور میں ‘ میرا بیٹا اور سوہن راہی وہاں پہنچے ۔ ان کا حلیہ سن رکھا تھا کہ اونچے قد کے ‘ گوری رنگت اورو سکی کا گلاس ہاتھ میں ہوتا ہے ۔جب میں وہاں پہنچا تو دروازے تک اٹھ کر آئے پھر بات چیت ہوئی۔
میں نے انہیں بتایا ’’ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ میرا کلام سننا چاہتے ہیں ورنہ میری تو کئی سال پہلے سے تمنا تھی کہ آپ کے ساتھ میں کسی فلم میں ہوں ‘‘
کہنے لگے’’ فلم تو اب بعد میں دیکھی جائے گی‘ میری خواہش یہ ہے کہ میں آپ کے کلام کا غیر فلمی ایل پی بناؤں ‘‘
میں نے کہا ’’ ٹھیک ہے‘ یہاں تو میرے پاس کلام نہیں ہے۔ میں عنقریب پاکستان جانے والا ہوں۔ وہاں سے میں آپ کو پندرہ غزلیں بھیج دوں گا‘ اس میں سے آپ جو غزلیں استعمال کرنا چاہیں کریں۔ یہ غزلیں آپ کی ملکیت ہوں گی‘ آپ معاوضے کا فکر نہ کریں ۔ یہ میری طرف سے نذرانہ ہو گا اور میں معاہدہ بھی ساتھ ہی لکھ کر بھیج دوں گا ‘‘
کہنے لگے’’ معاوضہ تو خیر آپ کو کمپنی کی طر ف سے ملے گا کیونکہ میں اپنے لئے بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ معاوضہ نہ لوں ‘ اس لئے آپ کو معاوضہ تو لینا ہی ہو گا۔‘‘
وہ اس شام بمبئی روانہ ہو گئے۔ بعد میں میں پاکستان آیا اور حسب وعدہ یہاں سے یہ چیزیں رجسٹری کے ذریعے پوسٹ کر دیں۔ کئی دن گزر گئے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔ اچانک ایک دن کسی بھارتی پرچے میں یہ خبر پڑھی کہ ان کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے اور وہ چل بسے ہیں ۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے دوہراصدمہ ہوا۔ ایک تو اپنی خواہش کے پورانہ ہونے کا اور دوسرے مرنے والے کی خواہش کے پوری نہ ہو سکنے کا۔
اسی طرح بمبئی کا واقعہ ہے کہ مجھے سریندر کا فون آیا اور کہا ’’ میں ایک پرانا ایکٹر ہوں ۔اب تو میں بوڑھا ہو چکا ہوں‘‘
میں نے کہا’’ آپ مجھے دیکھیں گے تو میں بھی بوڑھا ہوں‘‘
کہنے لگے ’’ آپ کلام سے تو بوڑھے نظر نہیں آتے‘‘
کہنے لگے ’’ فلم میں تو آج کل میں نہیں آرہا ہوں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری آواز اب بھی ٹھیک ہے۔ آپ کرم کیجئے کیونکہ میں آپ کا کلام ریکارڈ کرنا چاہتا ہوں‘‘
میں نے کہا ’’جی بہتر میں آپ کو خط لکھ کر بھیج دوں گا۔ آپ کو میرا جو کلام پسند آئے لے لیجئے‘‘ میں نے ان سے کہا ’’ میں آپ سے ملنے کیلئے آؤں گا‘‘ لیکن پھربہت سے مشاعرے آن پڑے اور میں کلکتہ چلا گیا۔ پھر مصروفیت کی وجہ سے ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ میں نے انہیں خط لکھنے اور کچھ کلام بھیجنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
واپس لاہور آکر تقریباً ڈیڑھ ماہ گزر گیا۔ انہوں نے مجھے جو ایڈریس دیا تھا وہ مجھ سے کھو چکا تھا۔ جب یاد آیا تو میں نے ’’شمع ‘‘ دہلی والوں کو لکھا کہ ان کا ایڈریس بھیج دیں ۔ اس کے بعد پھر یہ بات ذہن سے نکل گئی۔ اس طرح سال ڈیڑھ سال گزر گیا۔ اور پھر پتا چلا کہ وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔
(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)