اسرار، برقرار، کھل جاسم سم والی بات!
قومی اور صوبائی (سندھ+کے پی کے) اسمبلیوں میں انتقال اقتدار کا اہم مرحلہ مکمل ہوچکا، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات ہو کر سندھ اور کے، پی، کے میں قائد ایوان کا انتخاب بھی ہوگیا، بلوچستان اسمبلی میں آج سپیکر اور ڈپٹی سپیکر چن لئے گئے تادم تحریر پنجاب اسمبلی میں پرویز الہٰی سپیکر چن لئے گئے، یہاں سابق سپیکر اسمبلی، وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الہٰی اور ان کے ایک دیرینہ ساتھی گوجرانوالہ کے چودھری اقبال گجر کے درمیان اہم مقابلہ تھا، تاہم ابھی تک تحریک انصاف کی طرف سے اسرار اور تحیر کا سلسلہ جاری ہے، صوبائی وزیر اعلیٰ کے لئے کسی رکن کو نامزد نہیں کیا گیا، وہ کون خوش نصیب ہے جس کے سر پر پنجاب کی ’’پگ‘‘ بندھے گی، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تو حمزہ شہباز شریف نامزد امیدوار ہیں اور وہی مقابلہ کریں گے، پنجاب کی صورت حال وفاق کی نسبت ذرا مختلف ہے کہ یہاں عددی اعتبار سے مسلم لیگ (ن) کے اراکین زیادہ منتخب ہوئے تھے، تاہم بھاری تعداد میں منتخب ہونے والے آزاد اراکین نے جہانگیر ترین کے جہاز کی سیر کی اور باری باری تحریک انصاف کا حصہ بنتے چلے گئے، مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی کے چھ اراکین کی حمائت پر بھی یقین تھا تاہم یہ توقع پوری نہیں ہوئی، قومی اسمبلی کی سطح پر وزیر اعظم کے مقابلہ میں نامزدگی باعث تنازعہ بن گئی، متحدہ حزب اختلاف کی طرف سے قائد ایوان کے لئے حزب اختلاف میں اکثریتی جماعت مسلم لیگ (ن) کو پیشکش کردی گئی، دوسری بڑی جماعت کے حصے میں سپیکر اور تیسری کو ڈپٹی سپیکر ملا، پیپلز پارٹی نے سید خورشید اور متحدہ حزب اختلاف نے صاحبزادہ اسد محمود کو میدان میں اتارا سید خورشید شاہ 146 اور صاحبزادہ اسد محمود 144 ووٹ حاصل کرسکے، تحریک انصاف کے اسد قیصر 176ووٹ لے کر سپیکر اور قاسم سوری 183 ووٹ لے کر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوگئے، سپیکر کے انتخاب میں آٹھ ووٹ اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں صرف ایک ووٹ مسترد ہوا، یوں واضح ہوگیا کہ پہلے انتخاب میں تحریک انصاف کے سات ووٹ مسترد ہوئے اور ایک حزب اختلاف کاتھا اور پولنگ میں کسی نے کسی سے بھی بے وفائی نہیں کی اور جتنے جس کے تھے اتنے ان کو مل گئے۔
قومی اسمبلی میں اب مرحلہ قائد ایوان کے انتخاب کا ہے جو آج ہو جائے گا، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لگ (ن) کے محمد شہباز شریف نے کاغذات نامزدگی داخل کئے ہیں، اس مسئلہ پر متحدہ حزب اختلاف میں ایک تنازعہ پیدا ہوگیا کہ پیپلز پارٹی نے محمد شہباز شریف کی نامزدگی پر اعتراض کردیا ہے اور مسلم لیگ (ن) سے کہا کہ کسی اور کو نامزد کریں ورنہ پیپلز پارٹی ووٹ نہیں دے گی۔ اس میں کیا اور کیوں والا معاملہ ہے کہ جب متحدہ حزب اختلاف کی کمیٹی میں قائد ایوان کے لئے اختیار مسلم لیگ (ن) کو دیا گیا تو پھر نامزدگی بھی اسی جماعت کا حق ہے، دوسرے کو اعتراض کیوں ہو، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ آٹا گوندھتی کے سر ہلنے والی بات ہے، ورنہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات میں تومتحدہ حزب اختلاف کے سب ووٹروں نے فیصلے کے مطابق ووٹ دیا حالانکہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی پیپلز پارٹی مخالف دھڑا موجود ہے، پیپلز پارٹی کو بھی شبہ کیا یقین تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے پورے ووٹ سید خورشید شاہ کو نہیں ملیں گے اسی لئے ان کی طرف سے بہت زیادہ محنت نہیں کی گئی حالانکہ کسی اپ سیٹ کی بھی توقع کی جارہی تھی، بہر حال یہ شکوک رنگ لے آئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا رویہ ظاہر کردیا اور پہلا مظاہرہ پنجاب اسمبلی میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں کیا، یہاں آصف علی زرداری کے فیصلے کے مطابق پیپلزپارٹی کے ارکان نے حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا، کسی بھی فریق کو ووٹ نہیں دیا، اس سے مسلم لیگ (ن) ( متحدہ حزب اختلاف) کو زبردست جھٹکا لگا کہ تحریک انصاف کو یہ بھی سہولت مل گئی کہ چھ مخالفانہ ووٹ براہ راست کم ہوگئے، یوں اب اس کا نتیجہ کل قومی اسمبلی اور بعد میں پنجاب اسمبلی میں بھی نظر آئے گا، جہاں پیپلز پارٹی کے ووٹ نہیں ڈالے جائیں گے اور تحریک انصاف کو مزید سہولت ملے گی اس حوالے سے بہت سی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں، ہماری اطلاع کے مطابق جس طرح منگل کی رات تک مذاکرات کے بعد متحدہ حزب اختلاف نے بدھ کو اتحاد کا مظاہرہ کردیا، ایسے ہی پیپلز پارٹی کو راضی کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، تاہم کسی اہم فیصلے کی اطلاع نہیں ملی، نتیجہ آج ہی معلوم ہوگا اور اگر اتفاق نہ ہوا تو پھر بات اور بڑھ جائے گی۔
عمران خان کے لئے ستے خیراں ہیں، الزام تو یہ لگایا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نیب سے بچنے کے لئے درپردہ عمران خان کی حمائت کررہے ہیں، پیپلز پارٹی کی طرف سے تردید کی گئی ہے، جو کچھ بھی ہونا ہے، مزید ایک آدھ دن میں ہو جائے گا، جہاں تک نیب سے بچنے کے لئے تحریک انصاف کی حمائت کا تعلق ہے تو اس سے آصف علی زرداری کو فائدہ نہیں ہوگا کہ نیب نے جو سلسلہ شروع کیا، اس کا دائرہ کار بڑھتا چلا جائے گا اور عوام کو یہ بھی توقع ہے کہ جو حضرات تحریک انصاف کی چھتر چھاؤں میں پناہ لے چکے ان پر بھی ہاتھ ضرور پڑے گا کہ اب ہر روز کسی نہ کسی رکن کا ماضی کے کسی مقدمہ سے تعلق نکل آتا ہے، حتیٰ کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی میں ایک یہ بھی رکاوٹ ہے کہتے ہیں عمران خان کے اپنے ذہن میں جس کا نام ہے وہ بھی ضمانت پر ہے، جبکہ عبدالعلیم خان میں جو خامی نکالی جارہی ہے وہ نیب کی طلبی ہے، بہر حال یہ سانپ بھی آج نکل آئے گا، ان سطور کے پریس میں جانے تک نام باہر نہیں آیا، قارئین! آج ذکر تو متوقع وزیر اعلیٰ کا کرنا تھا کہ کون کون میدان میں اور ان میں کیا کیا کمی ہے، بات اور طرف چلی گئی، انشاء اللہ آج لکھیں گے۔