پاکستانی جمہوریت کی گاڑی
پاکستان میں جمہوریت کے نئے باب کا آغاز ہو چکا ہے۔نئے وزیراعظم عمران خان کل اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے اور یوں نئے پاکستان کی تعمیر کے کام کا آغاز ہو جائے گا۔ وطن عزیز کے قیام کو 71 برس گزر چکے ہیں۔ اس عزم کے ساتھ نئے جمہوری سفر کا آغاز کیا جا رہا ہے کہ ملک میں ایسی تبدیلی آ جائے گی جس کا برسوں سے خواب دیکھا جا رہا ہے اور ہم اقبالؒ اور جناحؒ کے تصورات کے مطابق ایک فلاحی مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر شفیق جالندھری ہمارے استاد ہیں۔ بلکہ ہمارے بہت سے استادوں کے بھی استاد ہیں۔ طویل عرصہ پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ رہے۔ لوگ اپنی خامیاں چھپاتے ہیں مگر جالندھری صاحب کو اپنی خوبیاں چھپانے کی عادت ہے۔ وہ اچھے استاد ہی نہیں ہیں بہت اچھے مصنف بھی ہیں۔ جب ہم طالب علم تھے تو ان کی کالم نویسی اور فیچر نگاری پر کتابوں سے خوب استفادہ کیا۔ انہوں نے ’’امریکہ نامہ‘‘ کے عنوان سے سفرنامہ بھی لکھا۔ ان کی تحریر میں سادگی اور سلاست ہے۔ اپنے دلچسپ انداز بیان سے قاری کو مبہوت کئے رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’’گلگت بلتستان‘‘منظر عام پر آئی ہے۔اس کتاب میں انہوں نے گلگت بلتستان کے متعلق اپنے مشاہدات اور تاثرات کو زبان دی ہے۔ ان کی اس کتاب میں ایک باب ’’ایک قابل فراموش سفر‘‘ کے عنوان سے بھی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں ان کا گلگت سے راولپنڈی کا سفرنامہ نہیں پڑھ رہا ہوں بلکہ تاریخ پاکستان سے ملاقات ہو رہی ہے۔
قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم نے وطن عزیز کو جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کے لئے اقدامات کا آغاز کیا۔ بہت سے دانشوروں نے فکر اقبالؒ سے راہنمائی حاصل کرنے کا کام بھی کیا۔ قرارداد مقاصد کے ذریعے ایک ہدایت نامہ بھی منظور کر لیا گیا۔ برسوں پہلے ڈاکٹر شفیق جالندھری اپنے ایک رفیق پروفیسر بادشاہ خان کے ساتھ گلگت کے بس اڈے پر پہنچے تو پروفیسر صاحب ڈرائیور سے کہہ رہے تھے’’بھئی ٹائروں میں ہوا وغیرہ تو ٹھیک ہے ناں؟ بس کا پانی وغیرہ بھی دیکھ لو۔ ہر چیز اچھی طرح دیکھ لو۔ راستہ طویل اور خطرناک ہے۔‘‘ جالندھری صاحب کو پروفیسر بادشاہ خان کی یہ ہدایات کچھ نامناسب محسوس ہوئیں۔ مگر پروفیسر صاحب نے بتایا ’’دراصل ہمارے ہاں لوگ ایسے ہیں کہ جب تک انہیں ان کی ذمہ داری کے متعلق اچھی طرح اور بار بار نہ بتایا جائے وہ اپنی ذمہ داری کا کوئی کام ازخود کرنے کا مزاج نہیں رکھتے۔‘‘
پاکستان کے متعدد اکابرین نے بھی بار بار ہدایات دیں مگر امور مملکت جن کے سپرد تھے انہیں اس کی زیادہ پروا نہیں تھی کہ ان کے اقدام کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سیاست کی گاڑی جس انداز سے چلی اس کا اندازہ شفیق جالندھری صاحب نے اپنے سفر کے ابتدائی مراحل میں ہی کر لیا۔ وہ رقمطراز ہیں ’’بس رات کے ڈیڑھ بجے اللہ کا نام لے کر راولپنڈی کے لئے روانہ ہوئی۔ شہر سے نکل کر اس نے تین چار موڑ کاٹے تو محسوس ہوا کہ ڈرائیور صاحب تو بغیرہیڈلائٹس کے ہی بس دوڑائے لئے جا رہے ہیں۔
میں نے شور مچایا کہ میاں پہلے ہیڈلائٹس تو آن کرو۔ ڈرائیور نے کہا ’’نہیں جی ان کی ضرورت نہیں ہے۔ چاند اپنی پوری روشنی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے۔‘‘ دوبارہ عرض کیا ڈرائیور صاحب راستہ پرخطر ہے اور رات کے وقت ہیڈلائٹس کے بغیر گاڑی چلانا خلاف قانون ہے مگر ڈرائیور کا اصرار تھا کہ اسے سب کچھ نظر آتا ہے۔‘‘ اگر ہم واقعات کی مطابقت تلاش کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ لیاقت علی خان کے بعد جو جمہوری دور آیا اس میں بھی سیاستدان قانون کی پروا کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہیں یقین تھا کہ انہیں سب کچھ نظر آ رہا ہے مگر اندازہ نہیں تھا کہ جمہوریت کی گاڑی کے ساتھ مارشل لا کا حادثہ ہونے والا ہے۔ شفیق جالندھری صاحب کی بس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ رقمطراز ہیں’’بس شہر سے کوئی بیس میل دور شاہراہ ریشم پر رواں تھی کہ ایک دم سے انجن کی سمت سے زبردست دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا۔ مسافروں نے باآواز بلند کلمہ شہادت پڑھنا شروع کر دیا۔ ڈرائیور نے جلدی سے بس سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔ مسافر ایک دوسرے کو دھکے دیتے اور گراتے ہوئے افراتفری کے عالم میں باہرنکلے۔ ڈرائیور نے اعلان کیا کہ یہ معمولی مسئلہ ہے بس کو آگ نہیں لگی۔ یہ دھواں نہیں بلکہ بھاپ نکل رہی ہے۔ ریڈی ایٹر کا پانی ٹھنڈا کرنے والے پنکھے کی بیلٹ ٹوٹ گئی ہے۔
فکر کی کوئی بات نہیں ہے میں نے اڈے سے نکلنے سے پہلے ساتھ والی بس کی فین بیلٹ نہایت ہوشیاری سے چرا لی تھی۔ اب یہ بیلٹ بدل دی جائے گی۔‘‘ ڈرائیور نے حسب وعدہ بیلٹ بدل دی اور دوبارہ سفر کا آغاز ہوا۔ صدر ایوب خان نے بھی مارشل لاکے نفاذ کے بعد قوم کو یقین دلایا کہ ان کی قیادت میں ملک حقیقی ترقی کرے گا اور سیاستدانوں نے جو جمہوری تماشا لگا رکھا تھا اس سے ملکی استحکام کو شدید خطرہ تھا۔ ایوب خان نے مارشل لا کے ذریعے سفر کو جاری رکھا مگر اس کا آخری نتیجہ سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں نکلا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال متذکرہ بس کے ساتھ پیش آئی۔ بس نے مزید اٹھارہ بیس میل سفر طے کیا تھا کہ بس بے قابو ہو کر ایک طرف کو بڑھتی ہوئی پہلو والے پہاڑ سے کچھ دوری تک گھسٹتی چلی گئی۔ ’’بس کے مسافروں نے بہت نیچے گہرائی میں بہنے والے دریا کی طرف دیکھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا کہ اگر بس بے قابو ہوئی ہے تو پہاڑی کی طرف گئی ہے۔ اس نے دریا کا رخ نہیں کیا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ بس کی بریک فیل ہو گئی ہے۔ تاہم ڈرائیور اور کنڈکٹر نے مسافروں کو تسلی دی اور خود ایک گھنٹہ تک بس کے نیچے لیٹے ٹھک ٹھک کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے بریک کی مرمت کرلی ہے سب مسافر بس میں بیٹھ جائیں۔‘‘ سفر کا آغاز ہوا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر انہوں نے جمہوریت کو آمرانہ ہتھکنڈوں سے چلانے کی کوشش کی۔ 1977ء کے انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے دھاندلی کی اور اس کے نتیجے میں جمہوریت کی گاڑی پھر حادثے کا شکار ہو گئی۔’’ بس نے گلگت سے کوئی سوا سو میل کا فاصلہ طے کیا ہو گا کہ ایک دم سے رک گئی۔ اس مرتبہ پتہ چلا کہ ڈیزل کی ٹینکی لیک کر گئی ۔ سفر پھر رک گیا تھا۔ تاہم ڈرائیور نے کہا ’’بابا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ہم ہیں ناں! کوئی نہ کوئی انتظام کر لے گا۔ بس گھبرانا نہیں۔ ایسے راستوں پر سفر کرتے ہو تو حوصلے کے ساتھ کرو۔‘‘ ڈرائیور نے ٹینکی کی مرمت کر لی اور مہنگے داموں ایک دوسری گاڑی سے ڈیزل خرید کر سفر کا ازسرنو آغاز ہوا۔
سفر جاری رہا۔ بس ایبٹ آباد پہنچ گئی۔ مسافروں نے کھانا وغیرہ کھایا اور پھر سفر کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر شفیق جالندھری کے بقول ’’جب گلگت سے چلے تھے اس وقت رات کا آخری حصہ تھا، چاند اپنے جوبن پر تھا اور اس کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن ایبٹ آباد سے چلے تو رات کا پہلا حصہ تھا۔ آسمان پر چاند نہیں تھا۔ ’’ڈرائیور حسب معمول ہیڈلائٹس کے بغیر روانہ ہوا۔ میں نے اسے کہا کہ اب تو سڑک پر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے اب تمہیں ضرور گاڑی کی ہیڈ لائٹس آن کر لینی چاہئیں۔‘‘ اس نے کہا ’’جی آپ فکر نہ کریں مجھے سب نظر آ رہا ہے۔‘‘ میں نے اصرار کیا کہ اس اندھیری رات میں لائٹس کے بغیر سڑک پر بس نہیں چل سکتی۔ جب میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ گاڑی روک لو یہ لائٹس کے بغیر نہیں جائے گی۔ اس نے کہا ’’جناب آپ ناراض نہ ہوں۔ میں لائٹس کا انتظام کر لیتا ہوں۔ اس کے بعد اس نے کنڈکٹر کو بلایا اور لائٹس کے لئے کہا۔ کنڈکٹر ڈرائیور کی مخالف سمت والے دروازے میں آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں پنسل ٹارچ تھی جس نے اس سے بس کے آگے روشنی ڈالتے ہوئے دائرے بنانے شروع کر دیئے؟‘‘
ضیاء الحق کی وفات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف باری باری برسراقتدار آتے رہے۔ انہوں نے جمہوریت کی گاڑی کی ہیڈلائٹس آن کرنے کی بجائے جمہوری نعروں کی پنسل ٹارچ سے سفر جاری رکھا اور اس کا نتیجہ بھی ایک بڑے حادثے کی صورت میں نکلا۔ جنرل پرویزمشرف نے جمہوریت کا خاتمہ کر دیا اور قوم کو ایک نئے انداز کی ڈکٹیٹر شپ سے متعارف کرایا۔ شفیق جالندھری صاحب کی گاڑی بھی پنسل ٹارچ کی روشنی میں سفر کرتی رہی ہے اور پھر ایک پہاڑی ڈھلوان پر اسے حادثہ پیش آ گیا۔
’’بس گہرائی کی طرف لڑھکی چلی جا رہی تھی۔ مسافروں نے ایک بار مل کر پورے زور سے کلمہ طیبہ بلند کیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ اس کلمے کی شدت نے بس پر اثر کیا۔ بس ایک دم سے رک گئی۔ سب مسافر پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے کلمہ کا ورد کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دھکیلتے اور نیچے گراتے باہر نکلے۔ معلوم ہوا کہ بس لڑھک کر نیچے بہت گہری کھائی میں گرنے کے بجائے سڑک سے چند ہی گز کے فیصلے پر موجود ایک پختہ نالے میں پھنس گئی ہے۔ اس کے بائیں جانب والے دونوں ٹائر اس نالے میں دھنس جانے سے بس پینتیس کے زاویے پر بائیں جانب جھک گئی۔
رکاوٹوں اور حادثات سے ملاقاتیں کرتے کرتے یہ بس بالآخر راولپنڈی پہنچ گئی۔ ڈاکٹر شفیق جالندھری پر یہ راز تو فاش ہو چکا تھا کہ بس کی ہیڈلائٹس خراب تھیں مگر اس سفر کے متعلق ڈرائیور کا ایک لرزا دینے والا انکشاف ان کا منتظر تھا۔
’’بس سے اترنے کے بعد ڈرائیور سے کہا کہ استاد ڈرائیور صاحب یہ آپ کا کمال ہے رات کے سفر میں ہیڈلائٹس کے بغیر بھی آپ ایسے مراحل سے گزرتے ہوئے بھی خیریت سے ہمیں یہاں لے آئے ہو۔‘‘ ڈرائیور نے کہا’’صاحب ابھی تو بس کی بریک بالکل کام نہیں کر رہی تھی۔ اگر میں اس کی حقیقت آپ کو بتا دیتا تو آپ مجھے ہرگز گاڑی نہ چلانے دیتے۔ میں تو بغیر بریک کے ہی بس لے آیا ہوں۔‘‘
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت کی گاڑی بھی ہیڈلائٹس اور بریک کے بغیر سفر کرتی رہی ہے۔ حادثات کا شکار ہوتی رہی ہے۔ تاہم اب یہ ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی ہے۔ کپتان کے لئے لازم ہے کہ وہ مکمل طور پر تسلی کر لے کہ جمہوریت کی گاڑی کی ہیڈلائٹس اور بریکیں مکمل طور پر کام کر رہی ہیں۔پاکستان اب کسی نئے سانحے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔