ترک۔ امریکہ کشیدگی
پاکستان کی وہ ’’حقیقتِ منتظر‘‘ جو انشاء اللہ کل وزیر اعظم کے لباسِ مجاز میں نظر آجائے گی، اس کی طرف سے دو روز پہلے 15اگست کے اخباروں میں ایک ٹویٹ، ترکی کی حالیہ صورتِ حال پر تبصرے کی صورت میں شائع ہوئی جو کچھ اس طرح تھی:’’ میں اپنی قوم اور خود اپنی طرف سے صدر اردوان اور ترک عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم بحیثیتِ قوم ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں کہ وہ ان مشکل اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کرسکیں جو ان کو درپیش ہیں۔ یہ عظیم الشان قوم ہمیشہ ہی ان جیسی ابتلاؤں سے کامیاب و کامران نکلی ہے‘‘۔۔۔ میں نے جب یہ ٹویٹ دیکھی تو خیال آیا کہ اگر صدرِ ترکی، صرف دو جگہ اس ٹویٹ میں معمولی سی تبدیلی کردیں تو اِسی کو ہم پاکستانیوں پر لوٹا سکتے ہیں۔ یعنی ’صدر اردوان‘ کی جگہ ’وزیر اعظم عمران خان‘۔۔۔ اور ’ترک عوام‘ کی جگہ ’پاکستانی عوام‘ لکھ دیں تو یہ ’ترکی بہ ترکی‘ ٹویٹ بن جائے گا!
دیکھا جائے تو پاکستان آج ترکی سے زیادہ مشکل معاشی حالات میں گھرا ہوا ہے۔ مزید یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں ترکی کی مشکلات کا سبب امریکی صدر کی خوئے بد ہے وہاں پاکستان کی بدحالی کی ذمہ دار پاکستان کی گزشتہ حکومتیں ہیں۔
آج سے چند ماہ پہلے پاکستانی عوام کی وہ اکثریت جو پی ٹی آئی کہلاتی تھی حکومتِ پاکستان اور ’اردوان حکومت‘ کی دوستی کو شک کی نگاہوں سے دیکھتی تھی، لیکن پھر صورت حال اتنی تیزی سے تبدیل ہوئی ہے کہ آج عمران خان کو بھی صدر اردوان کی حمائت میں ٹویٹ جاری کرنی پڑی ہے۔۔۔۔ کسی نے سچ کہا ہے:
ز رنج و راحتِ گیتی مشو خرم، مرنجاں دل
کہ اندازِ جہاں گاہے چنیں باشد، چناں گاہے
]اس دنیاکے رنج و راحت سے نہ تو خوش ہونا چاہئے اور نہ افسردہ دل ہونے کی کوئی ضرورت ہے۔ یہ تو اندازِ زمانہ ہیں جو بعض اوقات ’’چناں‘‘ ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ’’چنیں‘‘ کاروپ دھار لیتے ہیں[۔
ترکی اور امریکہ کے تعلقات تاریخ کے گزشتہ ادوار میں زیادہ تر خوشگوار رہے ہیں۔ ترکی نیٹو(NATO) کا ممبر ہے اور ہمیشہ امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتا رہا ہے۔ 1950-53ء کی کورین وار ہو یا 2001-14ء کی افغان وار، ترکی نے ہمیشہ اپنی فوج کو امریکی افواج کے شانہ بشانہ ہر معرکے میں پیش پیش رکھا ہے۔ مزید برآں ترکی نے اپنی ایک بہت وسیع و عریض بیس (Base) امریکہ کے حوالے کررکھی ہے۔ یہ بیس ترکی کے جنوب مغربی علاقے میں ہے جو شامی سرحد سے صرف 100 کلو میٹر دور ہے۔ اس کا نام انسرلک ائر بیس (Incirlik Air Base) ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں امریکہ نے 50سے زیادہ جوہری بم بھی رکھے ہوئے ہیں جو بوقت ضرورت ایشیائی فلیش پوائنٹوں تک (فوری طور پر) پہنچائے جاسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہاں سے امریکہ کے دیوہیکل بی 52- سٹرٹیجک بمبار طیارے بھی پرواز کرکے مشرقِ وسطی، جنوبی ایشیا اور مشرقِ بعید کے خطوں میں جہاں چاہیں آپریٹ کرسکتے ہیں۔ انسرلک سائز کی کوئی بھی دوسری بیس، ’ترکی سے لے کر جنوبی کوریا تک‘ موجود نہیں، اس لئے اس کی سٹرٹیجک اہمیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ترک۔ امریکہ تعلقات کی تاریخ اتنی ہی پرانی اور اتنی ہی اہم تھی تو پھر کیا وجہ بنی کہ آجکل ان تعلقات کا مستقبل نہ صرف ڈانواں ڈول ہے بلکہ اس کا قبلہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے! ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ترکی، امریکی حلقۂ اثر سے باہر نکل گیا تو اس کا لامحالہ فائدہ روس کو ہوگا اور دنیا بھر میں طاقت کا توازن درہم برہم ہو جائے گا۔
یہ تبدیلی جن عوامل کی وجہ سے واقع ہورہی ہے ان کی تفصیلات تو اگرچہ بہت سے پیچیدہ سیاسی اور عسکری معاملات سے عبارت ہیں لیکن میں یہاں مختصراً ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں:
1۔جب ترکی میں رجب طیب اردوان منصّۂ شہود پر آئے تو ترکی کی مسلح افواج کا اخلاقی ڈاکٹرین، جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کے ان تصورات و خیالات پر مبنی تھا جن کی وجہ سے ترکی نے پہلے جنگ عظیم اول اور پھر جنگ عظیم دوم میں اپنی جغرافیائی سرحدوں کا کامیاب دفاع کیا تھا۔اس کے بعد کمال اتاترک نے ملک میں جو اصلاحات نافذ کیں ان کی وجہ سے ان کیعقیدے کو ’سیکولرازم‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ چنانچہ ترکی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جتنی بھی سول حکومتیں برسراقتدار آئیں ان پر سیکولر فوج کا غلبہ رہا۔ ان برسوں میں فوجی حکمرانوں کے طویل دور بھی آئے۔ لیکن جب اردوان نے حکومت سنبھالی توانہیں ترکی میں اسلام پسند طبقات کی زیادہ حمائت حاصل تھی جو فوج کو ناپسند تھی۔ چنانچہ یہیں سے ترک فوج اور ترک عوام میں اختلاف کی خلیج کا آغاز ہوا جو دن بدن اسلامی طرز کے حق میں وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔
2۔ ترک فوج کو اپنی چودھراہٹ کا سنگھاسن جب ڈولتا ہوا محسوس ہونے لگا تو انہوں نے اردوان کو معزول کرنے کی ٹھان لی۔ امریکہ، ترک فوج کا سب سے بڑا حمائتی تھا اور ترک اسلحہ جات تقریباً سب کے سب امریکی نسل کے تھے، اس لئے امریکہ، اردوان سے کھنچا کھنچا رہنے لگا۔
3۔ اس کھینچا تانی میں ایک ترک شخصیت بہت واضح ہو کر سامنے آئی۔
اس کا نام فتح اللہ گولن تھا۔ یہ صاحب، پہلے تو اردوان کے حامی تھے اور ان کے ساتھ پاکستان بھی آئے تھے لیکن پھر دونوں میں کشیدگی بڑھنے لگی۔ گولن کو امریکی انتظامیہ اور CIA کی پوری امداد حاصل تھی۔ چنانچہ وہ امریکہ چلے گئے اور آج بھی ریاست پنسلو وینیا میں ایک وسیع و عریض ’’آسائش گاہ‘‘ میں جلوہ فرما ہیں۔ ان کے فلسفے پر تبصرے کا یہ محل نہیں لیکن ان کے لاکھوں مرید اس وقت بھی ترکی میں جگہ جگہ موجود ہیں اور خودامریکہ میں ان کے فلسفے کے پیروکاروں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ ان کی ادارت میں ایک دو ماہی میگزین بھی ایک مدت سے شائع ہو رہا ہے جس میں اسلام کے سائنسی،مذہبی، اخلاقی اور سیاسی موضوعات پر مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ان مضامین پر امریکی سائنٹیفک اور ٹیکنالوجیکل اثرات کی گہری چھاپ ہے۔ میں نے تا دیر ان کا مطالعہ کیا اور اس میں شائع ہونے والی تحریروں سے متاثر بھی رہا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ کھلا کہ گولن صاحب اسلام کی روحانی اقدار کی نہیں، بلکہ مغربی عقائد کی ترویج و تبلیغ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہی سبب تھا کہ گولن اور اردوان میں اختلاف پیدا ہوا۔
3۔ گولن کے ہزاروں مرید ایسے ہیں جو ترک افواج میں ہیں اور CIA کے پروردہ بھی ہیں۔ انہی کی مدد سے 2016ء میں اردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔ بہت خون خرابہ ہوا۔ یہ تو اردوان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بچ گئے۔ ان کے بچاؤ میں روس کے صدر پوٹن کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
4۔ترک فوج کی اس بغاوت کے بعدہزاروں کی تعداد میں فوجیوں پر مقدمات چلائے گئے اور ان کو سزائیں دی گئیں۔ حال ہی میں اردوان نے بڑی بھاری اکثریت سے ایک بار پھر الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے اور روس کے زیادہ قریب ہوگئے ہیں۔
5۔ اسی دوران اردوان نے روس کے مشہورِ زمانہ ’’ ائر ڈیفنس سسٹم S-400‘‘ کی خرید کا ارادہ ظاہر کیا جس پر امریکہ اور ناٹو کے دوسرے ممالک سیخ پا ہوگئے اور انہوں نے آپس میں مشورہ کرکے ترکی کو نیٹو(NATO)ہی سے علیحدہ کرنے کی پلاننگ کرلی۔
6۔ یہ کشمکش جاری تھی کہ امریکی صدر نے پچھلے ہفتے بعض ترک برآمدات پر اضافی ٹیرف(ٹیکس) لگا دیا جس سے ترکی کا ایلومینیم % 20 اور سٹیل 50% مہنگا ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں ترک کرنسی (لیرا)کی قیمت پاتال میں گرنے لگی۔ (اسی کیفیت کا ذکر عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں کیا ہے)۔
7۔ امریکہ نے وہ F-35 طیارے بھی روک لئے ہیں جو ترکی کو چند روز میں ملنے والے تھے۔ یہ طیارے دنیا بھر میں جدید ترین جنگی طیارے گردانے جاتے ہیں۔
8۔ اردوان نے بھی امریکی اقدامات کا ’ترکی بہ ترکی‘ جواب دیا ہے اورامریکی درآمدات مثلاً کاریں، سیگریٹ اور الیکٹرانکس کے سامان پر ٹیکس کی شرح دگنی کردی۔ اور امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ اس کی دھمکیوں میں نہیں آئے گا اور مشرقی دوستوں کی طرف چلا جائے گا۔۔۔۔( ظاہر ہے،ان کااشارہ روس اور چین کی طرف ہے)
9۔ اردوان کے دور میں ترکی نے اقتصادی میدان میں بھی بہت ترقی کی اور ترک عوام کو بھی ہر قسم کا ریلیف ملا اس لئے صدر کو امریکی پابندیوں سے کوئی خطرہ نہیں۔
قارئین گرامی! اگر سوال یہ ہو کہ ترک۔ امریکی تعلقات میں کشیدگی کو صرف چار لفظوں میں بیان کرو تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ جھگڑا:’’کفر و اسلام کا جھگڑا‘‘ ہے۔
ایک اور پہلو بھی آپ کے مدنظر رہنا چاہئے کہ اس طرح کے بحران، مغربی ممالک پہلے ’خود‘ پیدا کرتے ہیں تاکہ ان سے تیسری دنیا دو حصوں میں تقسیم رہے اور ان کی ’’ویبن فیکٹریاں‘‘ چلتی رہیں۔ ان کو بظاہر گولن صاحب سے کوئی غرض نہیں۔ 2016ء کی بغاوت میں ایک امریکی پادری اینڈریو برن سن (Andrew Brunson) بھی ملوث پایا گیا تھا جس کو ترکی نے رنگے ہاتھوں پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ اس کے سینے میں بہت سے راز ہیں جن سے CIA کے ملوث ہونے کی قلعی کھل جاتی ہے۔ امریکہ نے بارہا اس کی رہائی کی کوشش کی ہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لئے اس نے عاجز آکر ترکی کی اقتصادی پوزیشن پر وار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم امید ہے کہ صدر ولاڈامیر پوٹن اور صدر شی جن پنگ اس کو سہارا دیں گے۔ ماہرین کا یہ کہنا بھی ہے کہ اگر ترکی، نیٹو سے نکل گیا تو 28 ممالک کا یہ ’’عسکری اتحاد‘‘ بھی بکھر جائے گا!
یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ صدر ٹرمپ یکے بعد دیگرے ایک ہی طرح کے ’’عاری از عقل‘‘ (Reckless) اقدامات اٹھا رہے ہیں۔۔۔۔ مثال کے طور پر شمالی کوریا کو پہلے دھمکیاں دینا اور بعد میں ٹائیں ٹائیں فِش ہو جانا۔۔۔ امریکہ۔ ایران جوہری معاہدے سے باہر نکل جانا اور پھراُسی ایران سے بات چیت کا ڈول ڈالنا ۔۔۔ پاکستان کو دھمکیاں دینا اور ہر قسم کی امداد بند کردینا۔۔۔ ٹریننگ اینڈ ایجوکیشن پروگرام سے پاکستان کو علیحدہ کردینا اور جب پاکستان کو ٹس سے مس ہوتے نہ دیکھنا تو پھر نئی حکومت سے عہدِ و پیمان شروع کرنے کا عندیہ دینا۔۔۔ اور اب ترکی سے پنگا لینا اور۔۔۔؟؟؟ ابھی نجانے اور کیا کیا قلابازیاں ہیں جو یہ امریکی مسخرے عالمی سرکس میں لگانے جارہے ہیں:
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا