اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 17
ہڑپہ سے موہنجودڑو تک کا سفر ایک طویل سفر تھا اور جنگلوں اور صحراؤں میں سے گذرنا پڑتا تھا۔ ہڑپہ کی تہذیب و ثقافت موہنجودڑو کی ہمشیر تہذیب و ثقافت تھی۔ دونوں ملکوں کے معاشرے کی اچھائیاں، برائیاں اور عقیدے ایک جیسے تھے۔ دونوں تہذیبی لہو و لعب اور عیش کوشیوں کے نکتہ عروج پر تھیں ۔ مذہبی رسوم نام کی تھیں اور حکمرانوں کی لذت پرستیاں مذہبی رسومات میں بھی سرایت کی گئی تھیں۔ امراء پرستی نے ایک گھناؤنے اور ناقابل علاج مرض کی شکل اختیار کر رکھی تھی۔ یہ دونوں تہذیبی میرے وطن مصر کی ہم عصرتھیں مگر دونوں کا ایک دوسرے پر کوئی اثر نہیں تھا۔ ہڑپہ اور موہنجودڑو کے لوگ بھی قدیم مصریوں سے مختلف تھے۔ یہ اپنا ناتا وسط ایشیائی سے ہجرت کرنے والے آریہ قافلوں سے جوڑتے تھے جن کی ایک شاخ قدیم افغانستان سے الگ ہو کر گندھارا میں آباد ہوگئی تھی اور دوسری شاخ ایران کی شمالی سطح مرتفع اور جنوبی ایران میں جا کر بس گئی تھی۔ یہ وہی جنوبی شاخ والی آریہ نسل تھی جو بعد میں میڈی قوم سے مشہور ہوئی۔ میں ان لوگوں کی تاریخ و ثقافت، تہذیب و تمدن اور مذہبی دیومالا پر غور کرتا سفر کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ میں کاہن اعظم کے جلیل القدر مرتبے پر فائز تھا۔ چنانچہ ہڑپہ سے ہی میرے ساتھ ایک خاص حفاظتی دستہ تعینات کر دیا گیا تھا جو مجھے اپنے جلو میں لئے موہنجودڑو کی جانب رواں تھا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 16پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کسی وقت رقاصہ روکاش کی تلخ یاد میرے دل پر حملہ کردیتی اور میں اس کی جگر پاش محبت میں ناکامی کے باعث تڑپ تڑپ اٹھتا اور میں اسے قتل کرنے کے ارادے پر اور مضبوطی سے جم جاتا۔ موہنجودڑو سے ایک کوس باہر پجاریوں کے ہجوم نے میرا خیر مقدم کیا۔ بادشاہ سومر نے شاہی گارڈز کا ایک دستہ بھی میرے استقبال کے لئے بھیجا تھا۔ میں بڑی شان و شکوہ کے ساتھ بعل کے عظیم الشان مندر میں داخل ہوا۔ مندر کے دروازے پر میرا نائب کاہن چاندی کے طشت میں مقدس زعفران اور صندل لئے ادب سے کھڑا تھا۔ اس نے زعفران و صندل میرے قدموں میں چھڑکا اور مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔
ضروری مذہبی رسومات سے فارغ ہو کر میں نے روکاش کی قائم مقام رقاصہ دیوداسی الکندہ کو اپنے کمرہ خاص میں بلایا اور روکاش اور موگاش کے ساتھ بیتے ہوئے المیے کے بارے میں پوچھا۔ الکندہ شروع ہی سے میرے کردار کی ایک خصوصیت کی معترف تھی کہ میں رازوں کی پاسبانی کرتا ہوں اور دوسروں کا راز اپنے دل کہ گہرائیوں میں دفن کر دیا کرتا ہوں۔ میں نے اسے دیوتا بعل اور دیوی اشتر کی قسم دے کر کہا کہ وہ مجھے روکاش اور موگاش کے فرار کے بارے میں بتائے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ اس کاراز میرے سینے میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجائے گا۔ پھر الکندہ نے اپنی جان کی امان کا مجھ سے حلف لیا اور مجھے شروع سے لے کر آخر تک پوری تفصیلات سے آگاہ کر دیا۔ میں خاموشی سے سنتا چلا گیا۔ جب اس نے پرنم آنکھوں سے موگاش کے قتل اور روکاش کے شاہی محل میں منتقل ہونے کی داستان الم بند کی تو مجھ سے ایک بار پھر وعدہ لیا کہ میں یہ راز کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ میں نے اسے تسلی دی اور رخصت کردیا۔ دوسرے روز مجھے شاہی دربار میں طلب کیا گیا اور بادشاہ سومر میری تعظیم بجا لانے کے بعد حجلہ خاص میں لے گیا۔ اس نے مجھے قیمتی دو شالوں کا تحفہ دیا اور روکاش کے معاشقے کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔
’’ کاہن اعظم عاطون! شاہی بت تراش نے دیوی دیوتاؤں کی منظور نظر رقاصہ کو اغواء کر کے جس گھناؤنی گستاخی اور بے ادبی کی جسارت کی تھی اس کی اسے سزا مل گئی۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’ لیکن اے شہنشاہ عالی مقام! رقاصہ روکاش بھی اسی گستاخانہ فعل کی مرتکب ہوئی ہے وہ سزا سے کیوں محفوظ رکھی گئی۔‘‘
بادشاہ نے اپنا چہرہ اوپر اٹھا کر چھت میں لگے جواہرات کو دیکھا اور بولا۔
’’ قائم مقام کاہن اعظم نے مجھ تک دیوی دیوتاؤں کا یہ پیغام پہنچایا تھا کہ وہ اس مرتد رقاصہ کو قتل کرے اس کی زندگی کی سزا کی اذیت سے نجات نہیں دلانا چاہتے۔ ان کی خواہش ہے کہ رقاصہ روکاش شاہی محل کے بھرے دربار میں ملکی اور غیر ملکی شخصیتوں کے آگے رقص کا مظاہرہ کر کے ذلیل و رسوا ہو اور جب تک زندہ رہے یہ ذلت برداشت کرتی رہے۔‘‘
میرے مخبروں نے ہڑپہ ہی میں مجھے اصل واقعات سے باخبر کردیا تھا اور میں خوب جانتا تھا کہ میرے لالچی اور مکار نائب کاہن اعظم کایہ دیوملائی پیغام ان بیشی قیمتی زرو جواہر کا مرہون منت تھا جو بادشاہ کی جانب سے اسے پیش کئے گئے تھے۔ میں چونکہ رقاصہ روکاش کو قتل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا اس لئے مجھے اب اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ مندر میں رقص کرتی ہے کہ شاہی دربار میں ناچتی ہے۔ میں نے بادشاہ سے یہی کہا کہ میرے نائب کاہن نے جو کچھ کیا درست تھا اور دیوتاؤں کی یہی مرضی تھی کہ گستاخ اور مرتد رقاصہ روکاش بھرے دربار میں رقص کرے اور اس رسوائی کی زندگی کی آخری گھڑیوں تک برداشت کرے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے انداز فکر سے بادشاہ کو بے حد خوشی ہوئی ہے۔ اس نے مجھے اپنے اعتماد میں لینے کے لئے حجلہ خاص میں بلا کر تحائف پیش کیے تھے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تھا۔ مجھے ابھی اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی تھی اور یہ مقصد تھا روکاش کا قتل!
(جاری ہے۔۔۔اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)