فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر498

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر498
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر498

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ساحر لدھیانوی(عبدالحئی)ے بارے میں ہم نے ایک طویل مضمون سر گزشت میں لکھا تھا جو بعد میں "ساحراعظم"کے عنوان سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوا تھا۔اس مضمون کیلئے ہم نے ان گنت ذرائع سے معلومات حاصل کی تھیں اور خاصی ریسرچ کی تھی۔ساحر لدھیانوی پرتحقیق کرنے والوں نے اس کو بھی اپنی ریسرچ میں شامل کر لیا۔اس بارے میں آج بھی مختلف اصحاب ہم سے رابطہ کرتے رہتے ہیں۔چند ماہ قبل ہمیں ایک خط موصول ہوا۔سادہ الفاظ میں تحریر کردہ اس خط کو پڑھ کر ہم بہت خوش ہوئے ۔جی کی وجہ آپ بھی جان لیں گے۔یہ خط ساحر لدھیانوی کی چھوٹی بہن کی جانب سے موصول ہوا تھا۔اس مختصر کا مضمون ملا حظہ کیجئے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر497پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’تعارف یہ ہے کہ میں ساحر لدھیانوی کی دو سوتیلی بہنوں میں سے چھوٹی بہن سکینہ ہوں۔میری بڑی باجی کا نام ہاجرہ تھا۔وہ پانچ سال قبل فیصل آباد میں وفات پاگئی ہیں۔میں ضلع وہاڑی میں رہتی ہوں۔مجھے اپنے بھائی کے بارے میں کتابیں لکھنے والے تمام اہل قلم سے محبت بھی ہے اور ان کا میرے سر پر احسان بھی ہے۔دور افتادہ ہوں اس لیے خط لکھنے میں دیر ہوجاتی ہے مگرایک بات آپ سے کر رہی ہوں۔آپ نے ساحر)عبدالحئی(کے بارے میں فلمی انداز میں ایک بھر پور کتاب لکھی ہے جو دوسرے تمام لکھنے والوں سے زیادہ ہمہ گیر تاثر رکھتی ہے۔مجھے بہن کے طور پر اس میں بہت سی باتیں اور واقعات غلط یا الٹ پلٹ نظر آرہے ہیں۔مثلاًہمارے والد کا نام فضل چوہدری تھا۔وہ سیکھے وال گاؤں کے زمیں دار تھے اسی وجہ سے ’’فضلا سیکھے والیا‘‘کے نام سے پوری جگراؤں تحصیل میں معروف تھے ۔ذیلدار فضل محمد کوئی اور تھے۔وہ میرے اور ساحرکے والد نہیں تھے۔ایسی بہت سی باتیں دوسروں نے بھی لکھی ہیں اور آپ نے بھی۔اس میں حمید اختر صاحب)ساحر لدھیانوی کے سب سے قریبی دوست ان کا حوالہ ٹھہرا(آپ نے ان کے مضامین سے جو کچھ لیا یا خودگفتگو کے ذرایع حاصل کیا وہ بہت زیادہ ہے ۔کہیں کہیں غیر مستند باتیں بھی موجو د ہیں۔مثلاًطلاق کے بعد ان کی والدہ سردار بیگم کے ذریعہ معاش کے بارے میں ہمارا والد کے ساتھ آنے جانیکا سلسلہ ،1946ء میں ہوئی تھی تو گھر کی اور شادی کی تمام اشیا سردار بیگم ہی کی مشاورت سے خریدی گئی تھیں۔اس شادی کے دوران ہی ساحر کی اپنی سب سے پہلی منگیتر سے ناراضگی ہو گئی تو اس نے والدہ کو آنے جانے سے روک دیا۔اس منگیتر کا اب میرے سوا کسی کو علم نہیں ہے نہ ہی پہلے کسی نے اس کا ذکر کیا ہے۔تفصیل اور مدعا اس خط کا یہ ہے کہ جو باتیں دوسروں کے ہاں)مضامین میں(غلط دیکھ رہی ہوں اگرآپ فرمائیں تو میں اپنے بیٹے معین نجمی کے ذریعے لکھوا کر مضمون کی شکل میں آپ کو بھیج دوں؟ آپ اسے شائع کرکے سوانح نگاروں کی اصلاح کر دیں اور ساحر اعظم کے دوسرے ایڈیشن میں درست کردیں کہ آپ جیسا حقیقت پسند رائٹر تو سچ کے قریب ہو نا چاہیے۔یہ میں اسی صورت میں لکھوں گی اگر آپ حکم دیں گے۔1947تک ساحر کے بارے میں بہن کے حوالے سے سچا مضمون تھوڑا لمبا ضرور ہو جائے گا مگر ہوگا صد فی صد درست۔میں نے محسوس کیا ہے کہ میرے مرنے کے بعد کوئی ان باتوں کو صیحح)طورپر( نہیں بتا سکے گا اور حقائق پر پردہ ہی پڑا رہ جائے گا۔اس لیے آج آپ کو لکھ رہی ہوں۔فقط والسلام آپ کی بہن،ہمشیرہ ساحرلدھیانوی ۔سکینہ بی بی‘‘
محترمہ سکینہ بی بی کا یہ خط ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ہم نے اسی روز ان کے لکھے ہوئے پتے پر انہیں جوابی خط لکھا اور درخواست کی کہ وہ جتنی جلد ممکن سکے ساحر لدھیانوی کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہمیں تفصیلی خط لکھیں۔اس کے بعد ہم بے تابی سے ان کے جواب کے انتظار میں بیٹھ گئے۔کئی ماہ تک کوئی جواب موصول نہ ہونے پر ہم نے یاد دہانی کے طور پر انہیں دوبارہ خط لکھا اور ان سے ذاتی معلومات تحریر کرتے کی درخواست کی ۔ان کے پہلے خط پر کوئی تاریخ درج نہ تھی لیکن غالباًیہ فروری یا مارچ2002ء میں ہمیں موصول ہوا تھا۔ہمارے خط کے جواب میں 30اپریل2002ء کو ان کا دوسرا خط موصول ہوا۔اس میں انہوں نے ہمیں قدرے اپنائیت سے بھائی آفاقی صاحب سے مخاطب کیا تھا۔یہ خط بھی ملاحظہ کیجئے۔
’’بھائی آفاقی صاحب قبلہ!
سلام مسنون۔
آج سے قریباً دو ماہ قبل میں نے خود ہی بذریعہ خط ساحر لدھیانوی سے متعلق کتاب کے بارے میں کچھ حقائق بتانے کی اجازت چاہی تھی۔آپ کے خط کے بعد ان ہی دنوں میرے بیٹے معین نجمی باتھ روم میں وضوکرنے کے بعد کھڑے ہوئے تھے کہ گر گئے۔اس شدت سے چوٹ آئی کہ کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔بہاولپور وکٹوریا اسپتال میں آپریشن ہوا۔بھی تک وہ بیساکھی کے ذریعے صرف ایک ٹانگ پر بوجھ ڈال کر چل رہے ہیں۔جوں ہی ان کی صحت سنبھلے گی میں ان سے ساحر لدھیانوی کے بارے میں تیس چالیس صفحات پر مشتمل طویل مضمون ارسال کروں گی۔مثلاًپہلی بات تو یہ کہ ساحر سردار بیگم کی اکلوتی اولادنہ تھے۔ان کی ایک بہن بھی تھیں جن کا نام’’بی بی‘‘ تھا۔ایک سال چار ماہ کی ہو کر وہ اسہال کے عارضے میں فوت ہوگئی تھیں۔ ساحر کے بچپن کو بہت رنگ بھر کر پیش کیا گیا ہے۔1926ء میں میری اور میری بڑی بہن ہاجرہ کی ایک ساتھ شادی ہوئی۔اس وقت سردار بیگم عدالتی طور پر طلاق لے چکی تھیں۔جو بھی زمین بکتی اس پر شفعہ کرکے وہ خریدار سے پیسے وصو ل کرتی تھیں۔کچھ جیب خرچ میرے والد سے بھی لیتی تھیں۔ ہم دونوں بہنوں کی شادی تک یہ سلسلہ جاری رہا۔شادی کے تمام اخراجات سامان ،زیوررات اور کپڑوں کی خریداری میری حقیقی والدہ فاطمہ بی بی کے بجائے سردار بیگم نے کی تھی کیونکہ فاطمہ بی بی دیہاتی سمجھی جاتی تھیں۔سردار بیگم ہمارے خاندان میں سمجھدار اور با سلیقہ مشہور تھیں۔جو وہ کہہ دیتی تھیں ساری دنیا ان کی بات کو مانتی تھی۔یہ سچ ہے کہ وہ واقعی با سلیقہ خاتون تھیں اس لئے ہم دونوں بہنوں کی شادی پر تمام گھریلو لوازمات ان ہی کے ذریعے ادا ہوئے تھے۔ہم دونوں کی شادی خاندان کے قریبی لوگوں میں ہوئی تھی۔اس وقت بھی والد صاحب کے کہنے پر سردار بیگم نے دونوں)لڑکوں(سے سوال و جواب کرکے انہیں پاس کردیا تھا۔حالانکہ اس وقت طلاق کو سات سال ہو چکے تھے مگر سردار بیگم کا آنا جانا کبھی بند نہ ہوا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سوال و جواب کے وقت ہم تینوں بہن بھائی )بڑی بہن ہاجرہ ،میں اور ساحر( اندر کمرے میں موجود تھے اور ہمارے پاس ساحر کی پہلی منگیتر انور)جو کہ ساحر کے ماموں شفیع کی بیٹی تھی(وہ بھی موجود تھیں۔ ساحر ان پر ہلکے پھلکے جملے کس رہے تھے کہ اچانک انور نے دیہاتی انداز میں کہا’’لمبی ناک والے‘‘ کبھی سوچا ہے تمہاری ناک کیسی ہے؟‘‘
بس یہ جملہ سننا تھا کہ ساحر سرخ ہوگئے۔نا معلوم شرم سے یا غصے سے؟اس کی طرف دیکھا اور کمرے سے نکل گئے۔اس کے بعد ہم دونوں بہنوں نے ساحر کو اپنے پاس نہ پایا۔وہ کبھی نہ آئے۔ یہ مرحلہ ان کی زندگی کا بہت اہم مسئلہ تھا ۔تمام عمر میں اگر یہ مسئلہ سمجھ آجائے تو پورے ساحر کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔بچپن میں بھی اور اس کے بعد بھی ہم میں سے کسی نے اگر ساحر کو کوئی بات کہہ دی تو وہ کئی دن نہ آتے پھر آتے تو شرمیلے شرمیلے۔(جاری ہے)

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر499 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں