کشمیر،بھارت کا جنگی جنون، پاک فوج تیار

کشمیر،بھارت کا جنگی جنون، پاک فوج تیار
کشمیر،بھارت کا جنگی جنون، پاک فوج تیار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اس وقت جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بند کمرے میں جاری ہے۔ اس اجلاس کے انعقاد کو ہمارے وزیرخارجہ نے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا، جو ایک حد تک درست تو ہے، تاہم ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے کشمیر اور کشمیریوں کے حق میں کتنی اور کیسی لابنگ کی گئی ہے۔ اجلاس کے ہنگامی ہونے سے بہرحال یہ تاثر تو ابھرا کہ عالمی ادارے نے توجہ دی اور تنازعہ کشمیر کو زیرغور لانے کے لئے اجلاس طلب کیا تاہم یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اجلاس کا ایجنڈا مبہم ہے اور یہ طے کیا گیا کہ پہلا اجلاس خفیہ ہو گا اس میں صرف سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین ہی شریک ہوں گے جو مشاورت کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاحال صدر مجلس کے ذہن میں بھی واضح نہیں ہے اگرچہ یہ تنازعہ 1948ء سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے، اسے سردخانے کی نذر کیا گیا تھا کہ بھارت سے دو سے تین مرتبہ جنگ کے بعد حالات کی بہتری کے دوران ہی یہ طے کیا گیا کہ اس تنازعہ پر دونوں ملک دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے بات کریں گے۔


پہلی بار شملہ معاہدہ میں طے ہوا اور دوسری بار اعلامیہ لاہور نے صدا بلند کی۔ اس طرح بھارت ہر مرتبہ مطالبے کے جواب میں دو طرفہ بات چیت پر زور دیتا لیکن کوئی تصفیہ نہیں کرتا تھا، دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر یہ تنازعہ موجود ہونے کے باوجود زیر غور نہیں آتا تھا کہ بھارت شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کی بنیاد پر سلامتی کونسل میں زیر بحث آنے کی مخالفت کرتا تھا، تاہم اب صورت حال تبدیل ہوئی جو بھارتی وزیراعظم مودی کے اقدامات کے باعث ہے کہ انہوں نے بھارتی آئین میں کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اپنا قبضہ ظاہر کر دیا دعویٰ کیا کہ یہ بھارت کا اٹوٹ انگ تھا اور اب اسے باقاعدہ حصہ بنا لیا گیا ہے اس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ اس کشمکش میں اطمینان کی ایک ہی بات ہے کہ بھارت نے بھی سلامتی کونسل کی راہ دیکھ لی جہاں یہ تنازعہ فیصلے کا منتظر ہے، تاہم اس وقت اس بین الاقوامی ادارے کی جو ہیئت ہے اس سے کوئی بڑی توقع نہیں لگانا چاہیے۔ تاہم دنیابھر میں احتجاج کا جو سلسلہ جاری ہے وہ رک نہیں سکا۔ بڑھتا چلا جا رہا ہے اس سے بھارت کو گھبراہٹ تو ہونا چاہیے۔ بھارتی متعصب حکومت نے اپنے یکطرفہ فیصلہ کی حمایت کے لئے کشمیر میں فوج کی تعداد بڑھا کر دس لاکھ کر دی اور بارہ روز سے کرفیو لگا رکھا ہے،لوگ گولیوں، آنسو گیس اور پیلٹ گنوں سے مر رہے اور زخمی ہو رہے ہیں تو بھوکے بھی ہیں۔


رات گئے سلامتی کونسل کے اس پہلے مشاورتی اجلاس کے بارے میں علم ہو جائے گا کہ کیا ہو گا اور سلامتی کونسل کے اجلاس ہی میں باقاعدہ علاج کے حوالے سے کیا طے کیا جائے گا۔ادھر بھارت نے اپنے فیصلے کے مضمرات کو درست کرنے کے لئے پروپیگنڈے کا سہارا لیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے اس اقدام پر کشمیری مطمئن ہیں، حالانکہ پابندیوں میں جکڑے یہ لوگ بھی کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے چلے جا رہے ہیں، ہمارے خیال میں آج (جمعہ) کے اجلاس میں کسی بڑی پیش رفت کا امکان نہیں، اس کے باوجود یہ اطمینان کہ بین الاقوامی ادارے نے نوٹس لیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لوگ کشمیریوں کے ساتھ ہیں، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں اور کسی غفلت میں مبتلا نہ ہوں، اپنی تیاری اپنے ہی دعوؤں کے مطابق رکھیں، علاوہ ازیں دنیا بھر میں لابنگ بھی لازم ہے۔

جہاں تک بھارت کی شرانگیزی اور شرپسندی کا تعلق ہے تو اس کی طرف سے کنٹرول لائن پر خلاف ورزیوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ ابھی پچھلے ہی روز دو مختلف مقامات پر باقاعدہ حملہ کرکے جنگی کیفیت پیدا کی ہمارے چار جوان شہید ہوئے ہماری فوج کی جوابی کارروائی میں پانچ بھارتی مارے گئے اور بعض چوکیاں بھی تباہ کی گئیں، مطلب یہ کہ بھارت اندرونی کیفیت سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسا کر رہا ہے اور مقبوضہ وادی میں قتل عام کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھرپور جواب دیا جا رہا ہے اور دشمن کے پانچ فوجی واصل جہنم ہوئے ہیں۔


ستمبر قریب آ رہا ہے اور ہمیں 1965ء کی یاد آ رہی ہے جب بھارت مقبوضہ وادی میں زچ ہو چکا تھا اور اسے ہزیمت اٹھانا پڑنی تھی کہ اس نے واہگہ کی بین الاقوامی سرحدپر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا، ہماری افواج تب اپنی اپنی دفاعی پوزیشنوں پر جم کر بھی نہ بیٹھی تھیں۔ بہرحال نوجوان آفیسروں کی بہادری نے تاریخ رقم کر دی اور اوپر چڑھتے آتے دشمن کے دانت کھٹے کر دیئے، یہ جنگ بہرصورت پاکستان کے نام رہی تھی کہ بہادری سے دفاع کر لیا گیا اب حالات ویسے ہی خراب ہیں، تاہم اس بار پاک فوج پہلے ہی سے کارروائی کا جواب دینے کے لئے موجود ہے اور کسی بھی ایڈونچر کا جواب سخت دیا جائے گا۔اس حوالے سے ایک گزارش کرنا ہے کہ صدر سے وزیراعظم اور حکومتی رفقاء کے علاوہ اپوزیشن کی طرف سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ اتحاد ہی میں برکت ہے لیکن یوم سیاہ ہر ایک نے الگ الگ منایا جو دعوؤں کے برعکس ہے۔ تحفظات دور رکھیں قانونی امور کو چلنے دیں لیکن قومی مسئلہ پر تو اتفاق کا مظاہرہ کر دکھائیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

مزید :

رائے -کالم -