ڈاک کے ذریعے ووٹنگ، امریکی صدارتی انتخابات میں بحرانی مسئلہ بن گیا
واشنگٹن (اظہر زمان، بیورو چیف) کرونا وائرس نے جہاں امریکہ میں زندگی کے دوسرے معمولات پر اثر ڈالا ہے وہاں اس سے نومبر میں ہونے والی صدارتی انتخابات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ سماجی فاصلہ رکھنے کی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے انتخابی جلسوں، کنونشن بھی محدود ہوگئے اور زیادہ تر کارروائیاں آن لائن ہو رہی ہیں۔ اس بناء پر امریکی آئین میں ایک گنجائش ہے کہ آپ ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں جس پر سب سے زیادہ اعتراض صدر ٹرمپ اور ان کو ہے جو سمجھتے ہیں کہ چونکہ اس طرح سے ووٹ ڈالنے کے لئے جائز ووٹوں کی مناسب چھان بین نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ڈیموکریٹک پارٹی اس طریقے کو اپنے صدارتی امیدوار جوبیڈن کے حق میں استعمال کرسکتی ہے۔ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی حمایت کر رہی ہے۔ اتوار کے روز وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف مارک میڈوز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کسی بھی جائز طریقے سے ووٹ ڈالنے کے عمل کے مخالف ہیں لیکن ”یونیورسل میل“ کے ذریعے ووٹ ڈالنے سے کام نہیں چلے گا۔ اس میل سے مراد وسیع پیمانے پر اسے جسمانی طور پر ووٹ ڈالنے کے برعس ایک پورا متبادل نظام ہے۔ ”سی این این“ کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر ڈاک کے ذریعے ووٹنگ فراڈ کا باعث بن سکتا ہے جس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ڈاک خانوں میں ڈاک کو الگ کرنے کی مشینوں کو ہٹایا جا رہاہے جہاں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹ گنے جائیں گے۔ تاہم سی این این نے ایسی دستاویز حاصل کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف ریاستوں میں ایسی 671مشینیں ہٹائی جا رہی ہیں۔ جمعہ کے روز پوسٹل سروس نے وارننگ جاری کی تھی کہ تمام پچاس ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں ڈاک کے ذریعے بھیجے جانے والے ووٹ متعلقہ الیکشن دفاتر میں بروقت نہیں پہنچ سکیں گے۔
ڈاک ووٹنگ