فخر ہے کہ بے حس ہوں ۔۔
14 اگست یوم آزادی آیا اور گذر بھی گیا ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی میں اپنے بچوں کو باہر سیر کروانے لے کر گیا ۔ سڑکوں پر جھنڈیا ں تھیں اور گھروں کی چھتوں پرقومی پرچم بھی لہرا رہے تھے ۔ میرے بچے بہت خوش تھے اور میرا دل بھی حب الوطنی کے جذبات سے سرشار تھا ۔
خوب جوش و خروش اور گہما گہمی ہر سو دکھائی دے رہی تھی ۔ بچے بڑے سبھی یوم آزادی کی خوشیوں کو سمیٹ لینا چاہتے تھے ۔ اور کیوں نہ ہوتا ، آخر موقع ہی ایسا تھا ۔ اچانک کونے سے ایک شور اٹھا اور تمام لوگ بھگڈر کا شکار ہو کر ایک دوسرے کو پیروں تلے روندنے لگے ۔
دھوئیں کے بادل جب چھٹے تو ان کی جگہ زخمیوں کی سسکیوں اور ایمبولینسوں کے شور نے لے لی ۔ معلوم ہوا کہ بچوں کے لئے لگائے ایک سٹال پر کریکر حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں 20 افراد زٰخمی ہو گئے تھے اور ان زخمیوں میں زیادہ تر تعداد بچوں کی تھی ۔
ان زخمی بچوں میں سے 5 کی حالت نازک بتائی جا رہی تھی ۔ میرے حواس میرا ساتھ چھوڑ چکے تھےلیکن اپنے بچوں کی تلاش میں دیوانہ وار جائے وقوعہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کچھ ہی فاصلے پر ڈراسہما سمیع کھڑا مل گیا لیکن فصیح کا کوئی پتہ نہ تھا ۔ سمیع خوفزدہ بھی تھا اور بھائی کے لئے فکر مند بھی ۔ ’’ بابا فصیح بھائی نہیں مل رہے ، پتہ نہیں کہاں چلے گئے ؟ ‘‘ سمیع رو کر بولا
میری متلاشی نگاہوں کے سامنے سے میرے معصوم بچے کی شبہیہ نہیں ہٹ رہی تھی ۔ دوسرا سمیع کی پریشان حال صورت دیکھ کر میں اور بھی متفکر ہو گیا ۔ سمیع کو گود میں اٹھائے میں اپنے فصیح کی تلاش میں جائے حادثہ پر پہنچ گیا ۔ وہاں امدادی سرگرمیاں جاری تھیں ، تمام زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا ۔ میڈیا والے وقوعہ کی کوریج کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوششوں میں مگن تھے ۔
اور قریب کھڑی ایک ایمبولینس میں فصیح زٰخموں سے کراہ رہا تھا ۔ وہاں امدادی کارکنان مجھے میرے بچے کے پاس جانے سے روک رہے تھے لیکن میرے کانوں میں فصیح کی آوازیں گونج رہی تھیں کہ ’’ بابا بابا مجھے بہت درد ہو رہا ہے ، مجھے بہت چوٹ لگی ہے ۔‘‘
اپنے بچے کو زخمی حالت میں دیکھنے سے لے کر چلڈرن وارڈپہنچنے تک میرا حوصلہ دم توڑ گیا تھا ۔ وارڈ میں بچوں کا رونا اور مائوں کا سسکنا مجھے بے حال کر رہا تھا۔ خیر گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے میں نے ٹی وی بند کیا جہاں ملی نغمے فل والیوم سے چل رہے تھے ۔ گھر کی چھت پرلگے جھنڈے کو ایک جھٹکے سے اتارا اور ہاتھ میں پکڑی جھنڈی کو مسل دیا ۔
جانتے ہیں کیوں ؟ آپ سب کی طرح مجھے بھی پاکستان سے ، اپنے وطن سے بہت محبت ہے لیکن کیا آزادی کا مطلب صرف مادر پدر آزادی ہے ۔ یعنی آزادی ہے کہ جو چاہے کرو ، جب چاہو جس کسی پر جھوٹا مقدمہ بنوا دو ، سوشل میڈیا پر کسی کی پگڑی اچھا ل دو ۔ ایک دوسرے کا گلا کاٹو ۔ مدرسوں اور سکولوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کرو ۔ غریب کی حق تلفی کرو ، عورتوں کی عزتیں لوٹو ، ناجائز منافع کمائو اور نااہل افرا دکو عزت دو ۔
اگر یہی سب کچھ آزادی ہے تو میں بھر پایا ایسی آزادی سے ۔ ایسی آزادی سے تو میں غلام ہی بہتر ہوں ۔ ہم نے اس لئے تو آزادی حاصل نہیں کی تھی کہ اپنے بچوں کی جانوں کو درندوں کے حوالے کر دیں ، جہاں نئی نسل کا تحفظ یقینی نہ بنایا جا سکے ۔کیا وہاں آزادی ہے ؟
مجھے ایسی آزادی نہیں چاہیے بلکہ اب پوچھئیے تو مجھےفخر ہے کہ میں بے حس ہو چکا ہوں ، مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں ۔ ٹھیک ہے میرا بچہ بچ گیا ، کافی زخمیوں کو بچا لیا گیا لیکن اس ملک پر اسکے شہریوں پر سے میرا اعتبار تو ٹوٹ گیا ناں ۔۔وہ تو کبھی واپس نہیں آسکتا ۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.