کورونا کی چوتھی لہر
خواتین وحضرات تازہ خبر یہ ہے کہ جمعرات کے روز ایک دن میں کورونا وائرس سے 102افراد جاں بحق ہو گئے۔یوں اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب تک 24ہزار سے زائد ہو گئی ہے جبکہ تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 11لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنیٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر کا کہناہے کہ ملک بھر میں چار کروڑ ویکسین لگا دی گئی ہے۔ ”شاباش پاکستان“ مہم کے تحت ویکسین لگانے کی رفتار میں تیزی آرہی ہے۔ تاہم پاکستان اب بھی ویکسین لگوانے والے ملکوں کی فہرست میں بہت پیچھے ہے۔اسد عمر نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایک سال کے دوران کورونا وائرس کے حوالے سے ایس اُو پیز کی سب سے زیادہ خلا ف ورزی سیاستدانوں کی طرف سے ہوئی ہے۔اِسے چراغ تلے اندھیرا کے علاوہ کیا کہا جا سکتاہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے ایک قیامت بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی ڈھاٹی ہے۔ بھارتی حکومت کی بدانتظامی کے باعث کورونا کی چوتھی لہر پیدا ہوئی جو بھارت سے نکل کر دیگر ممالک میں بھی جا پہنچی ہے۔ان ممالک کی لپیٹ میں پاکستان بھی آگیا یہ چوتھا کون ہے؟ اس چوتھے کو ڈیلٹا ویرینٹ (Delta Variant) کہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ چوتھی لہر ایس اُوپیز کی خلاف ورزی کے باعث زور پکڑ رہی ہے۔اس سے کورونا مثبت کیسز کی شرح بڑھ کر 8فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔پاکستان کورونا مریضوں کے حوالے سے مرتب کی گئی فہرست میں 31ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے اور ایک بار پھر کورونا کی ہلاکت خیزیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
ملک بھر میں ہسپتالوں،قرنطینہ سینٹرز، وینٹی لیٹرز اور گھروں میں کورونا وائرس کے 78ہزار سے زیادہ مریض زیر علاج ہیں۔مریضوں میں رزوبروز اضافہ کی وجہ اب چوتھی کوروناکی لہر ڈیلٹا قسم ہے۔ جو دوسری اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔بد قسمتی سے کورونا کی اس قسم کی تشخیص کے لیے حکومتی وسائل ناکافی ہیں۔دوسری جانب حکام کے نزدیک ملک میں ہونے والی ویکسینیشن مہم کی رفتار اتنی تیز نہیں جتنی اُمید تھی۔ ماہرین پاکستان میں کورونا کی چوتھی لہر سے متعلق تشویش کا اظہار کر ہے ہیں۔ تاہم اس سہل پسندی کی بڑی وجہ آبادی کے ایک بڑے حصے کا ”تجاہل عارفانہ“ بھی ہے جو اب تک اس بیماری کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ وہ جو احمد فراز نے کہا ہے۔۔۔۔۔
جا ں سے عشق اور جہاں سے گریز
دوستوں نے کیا کہاں سے گریز
اب اس ”کہاں“ میں ویکسین لگوانے سے گریز بھی شامل ہوگیا ہے۔ کورونا کی چوتھی لہر کا شکار ہونے والوں کی تعداد کا پتا لگانا دشوارہو رہا ہے کیونکہ اس مخصوص قسم کی تشخیص جینوم سیکوئنسنگ Genome Sequencing سے ممکن ہے جو خاصا مہنگا طریقہ ہے ایک نمونے کو ٹیسٹ کرنے پر 40سے 60 ہزار روپے تکخرچ آتا ہے۔ البتہ پاکستان نے حال ہی میں مخصوص طرز کے پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے وائرس کی بدلتی ہوئی اقسام کا کھوج لگانا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ایک ٹیسٹ پر پندرہ سو سے تین ہزار روپے تک لاگت آتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک صوبہ سند ھ میں ایک سو سے زیادہ افرادمیں کورونا کی ڈیلٹا قسم کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ بلوچستان میں ایسے 34مریض سامنے آئے ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے اسے ”باعث تشویش قسم“ قرار دیا ہے کیونکہ یہ ایک تو بہت تیزی سے پھیلتی ہے دوسرا یہ بہت موثر انداز سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف زیادہ موثرطریقے سے احتیاط کرنے اور ایس او پیز پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا کہا جائے جب کہ عوام کی ایک بڑی تعداد احتیاطوں کے بارے میں لیت و لعل سے کا م لے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت کو لاک ڈاؤن کے سلسلے میں مزید سختی سے کام لینا پڑا۔ لوگ ماس میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہلاکتوں کے ثبوت اور مناظر دیکھتے ہوئے بھی احتیاط سے بے نیاز ہیں۔ہمیں اب اس بارے میں بہت سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ایک وقت تھا جب کورونا کی آمد پر اذانیں دی جا رہی تھیں اور اب بے پرواہی کا یہ عالم ہے کہ اس بیماری کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے لوگوں کو دوبارہ اُسی توجہ اور ہوش مندی کا مظاہرہ کرناہوگا۔
کہ پھر کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔۔
خواتین و حضرات دسمبر 2020میں سب سے پہلے بھارت میں دریافت ہونے والاکورونا وائرس ”ڈیلٹا ویرئینٹ“ کئی ممالک میں ہزاروں ہلاکتوں کا باعث بن چکا ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ ”چوتھا زخم“ ویکسین نہ لگوانے والی آبادی میں زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اس چوتھی لہر کی علامات تقریباََ وہی ہیں جو کووڈ- 19 میں دیکھنے میں آتی ہیں۔تاہم اس میں کھانسی کی نسبت نزلہ زیادہ شدید ہوتا ہے۔پاکستان میں کورونا وائرس کی پہلی لہرکی تصدیق مارچ 2020میں ہوئی، دوسری لہر فروری 2021تک چلی، تیسری لہر نے رواں سال مارچ میں سراٹھایا جبکہ چوتھی لہر کا آغاز جولائی 2021میں ہوگیا ہے۔اس لہرکے پاکستان میں آنے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ایس اُو پیز پر عدم عمل درآمد اور ناقص عمل درآمد اس قسم کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ اب لو گ اس بحث کو ختم کریں کہ کورونا کا کوئی وجود نہیں اور یہ کہ ویکسینیشن کی ضرورت نہیں۔ایسا نہ ہو کہ پھر ناصر کاظمی کی زبان میں کہنا پڑے۔۔۔۔۔
عتاب اہل جہاں سب بھلا دیئے لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک جو غائبانہ لگے
ویکسینیشن کے حوالے سے مختلف اداروں اور حکومتی محکموں نے جس طر ح ویکسین لگوائے بغیر داخلے پر پابندی لگائی ہے۔ ہماری دانست میں اس کے بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔
خواتین و حضرات ہمیں بھی اندیشہ ہے کہ کورونا وائرس کے بعد اب یہ شور و غوغانہ مچ جائے کہ یہ چوتھی لہر کیا ہے۔۔۔۔؟ یہ چوتھا کون ہے؟ ایک بار پھر ناصر کاظمی کا شعر ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے۔۔۔۔
شہر میں چوتھی لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ وبا چلی ہے ابھی