فوج کا احتسابی شکنجہ اور ہماری قومی سیاست
ہماری پاک فوج نے سالارِ اعلیٰ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں وہ کچھ کر دکھایا ہے جس کے بارے میں صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا کہ فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی احتساب کے شکنجے میں فِٹ کیا جا سکتا ہے، ویسے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہنے22نومبر2022ء کو (جنرل ہیڈکوارٹر)جی ایچ کیو راولپنڈی میں جو تقریر کی تھی وہ بڑی چشم کشا تھی۔اُنہوں نے اعتراف کیا کہ گزشتہ70 برسوں میں عسکری قیادتوں سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ اسی تقریر میں اُنہوں نے اعلان کیا تھا کہ فوج نے بحیثیت ادارہ فروری2021ء میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اب سیاست میں ہر گز مداخلت نہیں کرے گی، یہ فیصلہ فوج کی اجتماعی دانش کا مظہر ہے،فوج کو احساس ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت سے فوج کی شہرت کو بھی نقصان پہنچایا ہے، ہر افسر جو آئین کے تحت حلف اٹھاتا ہے اُسے اُس کی پوری پوری پاسداری کرنی چاہیے، اِس سے آئینی بندوبست اور سیاسی استحکام ناقابل ِ تسخیر بن سکے گا۔
فوج اپنے اِس عزم پر ڈٹی ہوئی نظر آ رہی ہے،وہ اپنے فرائق منصبی پوری صلاحیت اور دیانت داری کے ساتھ سرانجام دے رہی ہے،غیر ملکی سرمایہ داری کے فروغ کے لئے قائم کونسل میں ہمارے سالارِ اعظم بھرپور کردارادا کر رہے ہیں۔حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں، حکومت کو جہاں جہاں ضرورت پڑتی ہے، ہمارے سالارِ اعلیٰ وہاں کھڑے نظر آتے ہیں، فوج اپنے آئینی کردار کی ادائیگی میں مستعد نظر آ رہی ہے۔
داخلی دشمنوں کے ساتھ نبٹنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جو قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے در پے ہیں، اُن کا بھی پیچھا کیا جا رہا ہے، ان کا محاسبہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ سابقہ فوجی بھی اِس کام میں ملوث تھے جنہیں سزائیں سنائی جا چکی ہیں،ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنے اور انہیں شکست ِ فاش دینے کے بھی انتظامات کئے جا ہے ہیں۔اب سوشل میڈیا، فری فار آل نہیں رہے گا، دشمن پراپیگنڈہ کرنے والوں کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔
ہماری فوج تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی صورت میں فعال دشمنوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کر کے ریکارڈ قائم کر رہی ہے اور دشمنوں کا ناطقہ بھی بند ہوتا چلا جا رہا ہے، انہیں کھل کر کھیلنے کے مواقع میسر نہیں ہیں۔ وہ چھپ کر بزدلانہ وار کر رہے ہیں انہیں ہر گز جگہ،ہر مقام پر فوج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری فوج وطن ِ عزیز کے دفاع اور تحفظ کی شاندار تاریخ رقم کر رہی ہے۔
بات ہو رہی تھی کہ جنرل عاصم منیر نے وہ بھی کر دکھایا ہے جس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا اور وہ ہے فوج میں احتساب کا شکنجہ سخت ترین کرنا۔ فوج اپنے داخلی نظام کے تحت احتساب کرتی آئی ہے تاہم یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل سطح کے افسر کو جو آئی ایس آئی کا چیف بھی رہا ہو اُسے بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔جنرل فیض حمید شاید خود کو ناقابل ِ گرفت قسم کا جرنیل سمجھتے تھے، اُنہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا مرشد بھی کہا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دورانِ سروس بھی وہ عمران خان کے فیورٹ تھے اور انہیں آرمی چیف بنانے کی مکمل تیاریاں جاری تھیں، معاملات اِسی سمت میں جا رہے تھے، اُن کی بطور آرمی چیف پروموشن یا سلیکشن کے لئے کاغذی کارروائی بھی پوری کی جا رہی تھی، شرائط پوری کرنے کے لئے اُنہیں پشاور کا کور کمانڈر بھی بنا دیا گیا تھا اور پھراُنہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ”فاتح افغانستان“ بھی بھی بنا ڈالا تھا۔امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد جب کابل پر طالبان حکمران ہوئے تو جنرل فیض حمید نے کابل میں بیٹھ کر چائے کی پیالی کے ساتھ اپنے فاتح کے تاثر کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ الگ بات ہے کہ طالبان نے اُن کے اِس تاثر کی فوری طور پر نفی کر دی۔بہرحال فیض حمید اور دیگر کئی بڑے چھوٹے، حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسروں جو کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں انہیں فوجی قوانین کے مطابق احتساب کے شکنجے میں کسا جا رہا ہے۔ یہ احتساب سویلین اداروں جیسا نہیں ہوتا کہ ملزم یا مجرم معطل ضرور ہوتا ہے لیکن پھر وہ دے دِلا کر بحال بھی ہو جاتا ہے۔فوج میں یہ احتساب نہ صرف ہوتا ہے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔فوج نے اپنے آپ کو نہ صرف سیاست سے علیحدہ رکھنے بلکہ اُنہی صفوں کو پاک و صاف کرنے کا عزم صمیم کر لیا ہے جس کے بہتر نتائج نکلیں گے۔
دوسری طرف ہمارے سیاستدان ہیں وہ سیاست کی بے توقیری کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں جو پارلیمان کے اندر حکمران ہیں وہ عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں قطعاً ناکام ہو چکے ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کی ہدایات کے مطابق بجٹ2024-25ء میں صرف ٹیکس جمع کرنے کی پالیسی درج ہے،کس طرح اور کس کس کو نچوڑ کر وصولیوں کے اہداف پورے کرنے ہیں،آئی ایم ایف کو کس طرح راضی کرنا اور راضی رکھنا ہے۔ بس عوام جائے بھاڑ میں، مہنگائی ہے تو کیا ہے حکمران اور اشرافیہ طبقات کا تو یہ ایشو ہی نہیں ہے۔اُن کی عیاشیاں، غیر ملکی دورے، شاہی سرکاری اخراجات پروٹوکول ویسے ہی چل رہے ہیں ان میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔پاکستان2023ء میں ملک چھوڑنے والے نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے صف اول میں آ گیا ہے۔ گزرے سال کے دوران16لاکھ سے زائد نوجوانوں نے پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک میں چا بسنے کا فیصلہ کیا،ملک چھوڑ دیا۔یہ ہماری ناکامیوں اور نامرادیوں کا ایک اور تاریک پہلو ہے کہ جو نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں پاکستان اُن کی منزلِ مقصود ہی نہیں ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کا بیرون ملک جانا اچھا ہے کہ وہ یہاں زرمبادلہ بھجوائیں گے لیکن اُس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پھر ملک کون چلائے گا؟ معیشت کا پہیہ کون گھمائے گا؟ ہمیں سوچنا چاہیے۔۔۔