گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ....”پری پول رگنگ“
گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کے زیر اہتمام اقتصادی رابطہ کمیٹی نے آئندہ فصل کے لئے گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کرتے ہوئے اس میں ایک سو پچاس روپے فی من اوتیس سو پچہتر روپے فی بوری کا خطیر اضافہ کر دیا ہے، جس سے ملک بھر میں ماہرین نے اس اقدام کو مہنگائی کے حوالے سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں دو سال میں یہ دوسرا اضافہ ہے اور پیپلز پارٹی کے ساڑھے چار سالہ دور میں یہ تیسرا اضافہ ہے۔ ان چار سال میں گندم کی قیمت چھ سو پچس سے بارہ سو ،یعنی دوگنا ہوگئی ہے اور بھارت میں اس سال بھی گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا اور اسے بارہ پچاسی روپے فی کوئنٹل، یعنی ایک سو کلوگرام پررکھا گیا ہے، جس کے اپنے اثرات ہیں۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ یہ فیصلے کیوں اور کیسے ہو رہے ہیں، جبکہ کسی بھی صوبے سے یا سٹیک ہولڈرز سے اس بارے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور یہ وفاقی حکومت کی ”سولو فلائٹ“ ہے، جس کا آئندہ آنے والے الیکشن سے گہرا تعلق نظر آ رہا ہے اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تو اپنے بیان کے ذریعے اس تعلق کی تصدیق بھی کر دی ہے اور اپنے ہی دور میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو جو اختیارات دئیے تھے، اُن کی نفی بھی کر دی ہے۔ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ خاص طور پر پنجاب کے میاں محمد شہباز شریف اور سندھ کے قائم علی شاہ بہت پریشان ہیں کہ ان کو آئندہ برس گندم کی خریداری کے لئے کم از کم ایک سو پچاس ارب روپے اضافی درکار ہوں گے۔
اس ناپسندیدہ اور عجلت میں کئے گئے فیصلے کے کئی منفی اثرات ہیں، جن میں سب سے بڑا اور اہم مسئلہ مہنگائی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں فاو¿نڈرز گروپ کے رہنماو¿ں نے بتایا کہ بارہ سو روپے والی گندم خرید کر فلور ملرز کو تیرہ سو روپے فی من ملے گی تو کرایہ وغیرہ ڈال کر تیرہ سو پچاس کے قریب پڑے گی، اس حساب سے اپریل مئی دوہزار تیرہ میں عوام کو بیس کلوگرام آٹے کا تھیلا چھ سو چالیس کی بجائے آٹھ سو روپے میں ملے گا جو مہنگائی سے پسے ہوئے عوام کے لئے ایک خطرناک معاشی دھماکہ ہوگا، جس کی پوری ذمہ داری پیپلز پارٹی کی حکومت پر ہوگی، جبکہ آٹے کا معاملہ ایسا ہے کہ دوہزار سات میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت کو لے ڈوبا اور اس کے بہرحال سیاسی اثرات موجود ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی حکومت اسے الیکشن میں اپنی فتح قرار دے رہی ہے، کیونکہ اُن کے خیال میں زمینداروں اور کسانوں کا طبقہ اس فیصلے سے خوش ہو کر پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گا۔ ایسا خیال اور پھر ایکشن الیکشن میں ”پری پول رگنگ“ کے مترادف ہے، جس کا نہ صرف الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہئے، بلکہ سیاسی جماعتوں کے متحرک رہنماو¿ں کو بھی اسے روکنا چاہئے۔
دوسرا بڑا نقصان جو اس فیصلے کا ہو سکتا ہے، وہ گندم اور آٹے کی برآمد کا ہے جو بالکل زیرو ہو کر رہ جائیں گی۔ کسانوں کا یہ مطالبہ تھا کہ عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں، اس لئے یہاں امدادی قیمت بڑھائی جائے۔ پاکستان بھی گندم برآمد کرنے والا ملک ہے اور حال ہی میں اس فیصلے کے بعد اس نے ایران کو دس لاکھ ٹن گندم تین سو ڈالر فی ٹن میں فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے تو ہمارے لئے تو عالمی مارکیٹ یہی ہوگی اور جب بھارت میں گندم بیس ہزار روپے فی ٹن ہے اور پاکستان میں تیس ہزار روپے فی ٹن تو ہماری گندم کون لے گا اور دوسرا یہ کہ بھارت کو یہ موقع مل جائے گا کہ اس کے سمگلر پاکستان میں اپنی گندم اور آٹا سمگل کر کے یہاں کی زراعت کو تباہ و برباد کر دیں۔ آج کا دورپچاس روپے کے فائدے کے لئے سرحدوں کو کچھ نہیں سمجھتا، جبکہ یہاں تو ایک ہزار روپے فی بوری اور دس ہزار روپے فی ٹن کا فرق ہے۔ اس لئے جو دو تین سال سے ہم برآمدی ملک بنے تھے۔ اس حکومت کے ناقص فیصلے سے وہ بات بھی ختم ہو جائے گی، اگر پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ خیال ہے کہ اسے دیہی علاقوں سے اس فیصلے کے نتیجے میں ووٹ مل جائیں گے تو یہ خیال بھی غلط ہے، کیونکہ دور بدل چکا ہے۔
آج ایک تو دیہی علاقوں کے پچاس فیصد سے زائد لوگ کاشت کاری نہیں کرتے اور دوسرے گندم کو پسوا کر آٹا بنا لینے کا دیہاتوں میں رجحان ختم ہو چکا۔ اب فلور ملوں کا آٹا کھانے والے پاکستان کے انیس کروڑ عوام ہیں، جن پر مہنگائی کا پورا اثر پڑے گا اور اس کے نتیجے میں دوسری اجناس، بیکری آئٹمز، روٹی اور شرح سود تک مہنگی ہو سکتی ہے۔ حکومتیں عوام کے لئے ہوتی ہیں، مگر ساڑھے چار سال میں یہ معاملہ الٹا ثابت ہوا۔ اب عوامی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کے لئے مہنگائی میں اضافہ، سی این جی کا نہ ہونا، پٹرول، ڈیزل کی مہنگائی، لاقانونیت، دہشت گردی کے اثرات سمیت سب کچھ برداشت کرنے کی لازوال قربانی دے رہے ہیں۔ حکومت میں موجود لوگ عوام کو جانتے تک نہیں کہ یہ کس بلا کا نام ہے، جس طرف دیکھیں۔ اس حکومت کے کارندے کہیں سپریم کورٹ سے لڑائی، کہیں پارلیمینٹ اور سپریم کورٹ میں اختیارات کی جنگ اور کہیں اپنی کرپشن چھپانے کے انتظام کر رہے ہیں اور عوام کی جنگ کوئی بھی نہیں لڑ رہا۔
عالمی ادارئہ خوراک کے مطابق پاکستان میں غریب عوام کے لئے غذائی تحفظ کی صورت حال مخدوش ہے اور وہ گندم کی بہت زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اس حکومت کے فیصلے سے پہلے بلوچستان میں گندم کا آٹا سینتس روپے فی کلو گرام، جبکہ سندھ میں پینتس روپے فی کلوگرام اور پنجاب خیبر پختونخوا میں پینتس یا چھتیس روپے فی کلوگرام پر فروخت ہو رہا ہے، جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے مربوط نظام کے تحت غریب عوام کو آٹا تین روپے سے چھ روپے کلوگرام اور مارکیٹ میں سولہ روپے فی کلو گرام فراہم ہو رہا ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو یہاں کے عوام کو غذائی تحفظ سے دور لے جا رہا ہے جب تیرہ سو پچاس روپے والی گندم کا آٹا مارکیٹ میں آئے گا تو وہ چالیس سے بیالیس روپے فی کلوگرام تک چلا جائے گا جو عوام کو دیوار کے ساتھ لٹکانے کے مترادف ہوگا۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت سے زیادہ عوام تک غذا کی رسائی کا ناممکن ہونا ہے، کیونکہ گندم اور دوسری اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام کی قوت خرید میں کمی واقع ہو چکی ہے اور بعض سروے تو یہ ظاہر بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان میں 44 فی صد افراد نے اپنی خوراک ہی مہنگائی کے ہاتھوں تبدیل کر لی ہے اور غربت میں اضافہ اس کی بنیادی وجہ ہے۔
آخر گندم کی مہنگائی کی صورت حال کا حل کیا ہے۔ آخر بھارت میں گندم سستی رکھ کر کیسے کام چلایا جا رہا ہے۔ کوئی وزارت خوراک ہو یا کوئی سنجیدہ وزیراعظم ہو تو یہ مسئلے حل بھی کئے جاسکتے ہیں، جہاں اور اداروں میں ہمارے ہاں سسٹم نام کی کوئی چیز نہیں، ایسا ہی حال اس شعبے میں بھی ہے۔ کاشت کاروں کی ڈیمانڈ ہونی چاہئے کہ کھاد سستی بنیادوں پر فراہم کی جائے، مگر یہاں حکومت مقامی کھاد کارخانوں کو سوئی گیس اور بجلی فراہم نہ کر کے بند کر رہی ہے اور اس کو جواز بنا کر درآمدی پروگرام چل رہا ہے جس میں چار سو سے پانچ سو روپے فی بوری صرف ایک اعلیٰ شخصیت حاصل کر رہی ہے، دوسرے بھی کمیشن کھا رہے ہوں گے اگر اسی سسٹم کو ٹھیک کر لیاجائے اور کھاد، بیج، ٹریکٹر و ڈیزل کی فراہمی کو آسان بنا دیا جائے اور کھاد کی تقسیم میں وزیر صاحب اور تمام ایم این ایز کو آرام کا موقع دے کر براہ راست تقسیم کی جائے تو صورت حال درست ہو سکتی ہے۔
وفاقی حکومت کی یہ دلیل قطعاً درست نہیں کہ گندم کی پیداوار بڑھانے کے لئے قیمت میں اضافہ ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار گزشتہ دو دہائیوں سے جمود کا شکار ہے۔انیس سونرنوے کی فصل اور دوہزار گیارہ سے بارہ کی فصل کا موازنہ کیا جائے تو فی ایکڑ پیداوار میں قطعاًٰ کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا، جبکہ آج کے جدید سائنسی دور میں یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں، مگر ہماری حکومتوں کے وتیرے اس قسم کے ہیں کہ وہ ایشوز کی طرف تو توجہ ہی نہیں دیتیں، پوری اسمبلی کا کھانا ہر روز تیار پڑا رہتا ہے۔ چاہے اسمبلی کا اجلاس تیس سے چالیس لوگ ہی اٹینڈ کر رہے ہوں، باقی غیر حاضر لوگ کہیں استحقاق سے محروم نہ ہو جائیں اور عام آدمی کا ایشو گندم ہے جس پر کوئی ایم این اے بات کرنے کے لئے تیار نہیں، حتیٰ کہ ایک دو ایم این اے تو فلور ملر بھی ہیں، مگر اُن کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی.... اور تو اور یہ فیصلے جس ایوان میں ہو رہے تھے، وہاں فلور ملز ایسوسی ایشن کے موجودہ کرتا دھرتا لوگوں کی رسائی بھی ہے، مگر وہ اپنی نا اہلی کی وجہ سے دو مہینے تو خاموش رہے، اب کوششیں کر رہے ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ حکومت کو یہ بات ایک ہی بار حتمی طور پر سنا دیں کہ گندم جیسی اجناس کے بارے میں اہم فیصلے قانون کے مطابق اور سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر مت کئے جائیں۔ راقم الحروف اسی لئے تو کہتا رہا ہے کہ پاکستان میں گندم کے سٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک نمائندہ ”پاکستان ویٹ بورڈ“ ہونا چاہئے جو ان تمام معاملات پر ایک مستند رائے رکھتا ہو، مگر دوہزار سات کی ایک وفاقی اور صوبائی حکومت نے بھی یہ بات اس لئے نہ مانی کہ انہوں نے اس وقت زیادہ پیداوار کاغذوں میں دکھا کر اسے ایکسپورٹ کر کے نہ صرف بیاسی ارب کا نقصان کیا اور بعد ازاں ملک میں آٹے کی قلت اور لائنیں لگنے کی وجہ سے مزید ایک سو ارب روپے مہنگی گندم درآمد کر کے گنوا دیا اور پھر اسی عوام نے آٹا ہائے آٹا کے نعرے لگا کر ان کی حکومت کو ختم کر دیا اور وہ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کی گود میں جا گرے، وہی وقت پھر آ رہا ہے اور ایسے غلط معاشی فیصلے کر کے عوام کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کو بھی اس فیصلہ پر احتجاج کرنا چاہئے تاکہ عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچایا جاسکے اور قیمت کو 1050 روپے پر ہی رکھا جائے جیسا کہ بھارت نے بھی کیا ہے۔ ٭