فصیح بخاری کا ترازو
لیجئے چئیرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کی بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے، پہلے انہوں نے روزانہ بارہ ارب روپوں کی کرپشن کا ذکر کیا اور اب وہ کہتے ہیں کہ پنجاب ، پاکستان کی آبادی کا پینسٹھ فیصد ہے لہذا پینسٹھ فیصد کرپشن کاذمہ دار بھی پنجاب ہی ہے۔ چئیرمین نیب کے بیان کا جواب حکومت پنجاب کے ترجمان نے دے دیا ہے مگر میں یہاں اپنی اس حیرت کا دوبارہ ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے میں گذشتہ روز صرف ایک فقرہ لکھتے ہوئے ہی آگے بڑھ گیا تھا۔ میں نے لکھا ”چئیرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کی طرف سے یہ بیان اور پھر اس پر ڈٹ جانا میرے لئے اتنا ہی غیر متوقع اور حیران کن تھا جتنا کہ پیپلزپارٹی کے دوستوں کے لئے رہا۔۔“ مگر اب انہوں نے میری حیرانی دور کر دی ہے۔ دھڑے بندی اور تعصب کی فضا میں سانس لینے والے ہر فرد کی طرح فصیح بخاری کس طرح بھول سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف بنا کے ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی تھی اور انہوں نے ایوان وزیراعظم پہنچ کے اس پر بہت شور بھی مچایا تھا۔ ان کی پیپلزپارٹی کے ساتھ وابستگی عشروں پر مشتمل کہانی ہے، وہ اس انسپکشن ٹیم میں شامل تھے جس نے محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں متنازعہ آگسٹا ڈیل کے لئے گرین سگنل دیا تھااور جب وہ نیول چیف بنے تھے تو کک بیکس کے الزامات پر کسی قسم کی تحقیقات کی زحمت نہیں کی تھی، کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بھی خلاف تھے۔ انہوں نے کرپشن کے خلاف بہت خم ٹھونک کے بات کی اور بعد میں اس کی ذمہ داری پنجاب پر عائد کر دی، جہاں کے مالی معاملات پر بہرحال قومی اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے اپنے اطمینان کااظہار کررہے ہیں۔ وہ صدر کے دھڑے کے آدمی ہیں جنہوںنے انہیں گذشتہ برس اکتوبر میں قومی احتساب بیورو کا سربراہ مقرر کیا لہذا انہوں نے پورے پاکستان کی کرپشن کو آبادی پر تقسیم کرتے ہوئے ملک بھر میں ہونے والی کرپشن میں سے دو تہائی کی کالک پنجاب کے منہ پر مل دی۔ ان کے اس بیان پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ کیا پروفیشنل ازم ہے اور کیا اعداد و شمار کا استعمال ہے۔ انہوں نے میری طرح جمع ، تقسیم سے کام لیا، بارہ ارب کی روزانہ کرپشن کواٹھارہ کروڑ عوام پر تقسیم کرتے ہوئے ہر بندے پر چھیاسٹھ روپے ، چھیاسٹھ پیسے روزانہ غبن کرنے کا الزام لگایا اور پھر سوچا کہ اٹھارہ میں سے دس، ساڑھے دس کروڑ تو پنجاب کے شہری ہیں لہذا بارہ میں سے آٹھ ارب روپوں کی کرپشن تو پنجاب میں ہی ہو رہی ہے۔
ہمیں جھوٹ کو سچ کے ساتھ ملا کے پیش نہیں کرنا چاہئے، میں پنجاب حکومت کے بہت سارے اقدامات پر بہت ساری تنقید کرتا ہوں مگرا سکے باوجود یہاں حکومتی سطح پر کرپشن نہ ہونے کی گواہی ، شہباز حکومت کا حق ہے جو ادا کیاجانا چاہئے، یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ پنجاب کے حکمران حاجیوں تک کو لوٹنے والوں سے بہرحال مختلف ہیں۔ یہ وہ نہیں ہیں کہ پنجاب فوڈ سپورٹ پروگرام کو اس کے باوجود جاری رکھیں کہ مرکز میں تمام تر کرپشن اور ووٹ خریدنے کے الزامات کے باوجود بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ لیپ ٹاپ سکیم میں کرپشن کے خلاف بہت زیادہ شور مچاکہ اس میں ایم ایس ایف کو نوازا جا رہا ہے۔ طالب علم سیاست سے ماضی کی وابستگی کے باعث میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مسلم لیگ نون میں ایم ایس ایف نامی ونگ کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں، یہ رکن پنجاب اسمبلی رانا ارشد اور لاہور میں شہزاد خان ہی چلا رہے ہیں پوری پارٹی نہیں۔ پہلے اس جھوٹ کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ لیپ ٹاپ متوالوں میں تقسیم ہو رہے ہیںتو پھر یہ طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی کہ لاہور کے حفیظ سنٹر میں طلبا ءکو ملنے والے لیپ ٹاپ سرعام فروخت ہو رہے ہیں۔ میں نے اپنے پروگرام کے ایسوسی ایٹ پروڈیوسرمہر نوید احمد کو حفیظ سنٹر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ جس جس دکان پر سرکار کا دیا ہوا لیپ ٹاپ سیل کے لئے موجود ہے ، اپنا تعارف ایک طالب علم خریدار کے طو ر پر کرواتے ہوئے قیمت معلوم کرو،دکان اور دکاندار کا نام نوٹ کر و اور آخر میں اپنی اصل شناخت ظاہر کر کے فوٹیج بنا لو۔ نوید احمد نے پورا حفیظ سنٹر چھان مارا ، نہ لیپ ٹاپ ملا نہ کسی دکاندار نے دلوانے کی حامی بھری، ہاں اگر اکا دکا نظر بھی آیا تو وہ ونڈوز کی انسٹالیشن سمیت سافٹ وئیر یا ہارڈ وئیر کے کسی نقص کی درستگی کے لئے تھا۔
ہم میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو دانش سکولوں کے بعد میٹرو بس پراجیکٹ کو پنجا ب کے وسائل کا غلط استعمال سمجھتے ہیں مگر ایک سیاسی جماعت کی حکومت کے اس حق سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق وسائل کا استعمال کرے۔میٹرو بس بارے پروپیگنڈہ یہ ہے کہ اس پر چھبیس ، ستائیس نہیں ستر ارب روپوں سے بھی زیادہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ایک پروگرام کے دوران میرے سامنے انعام اللہ نیازی نے یہی الزام تواتر سے دہرایا تو ایل ڈی اے کے ترجمان کی طرف سے مجھے ایک باقاعدہ خط لکھ کر حقائق کو واضح کیا گیا، ابھی تک الزام تو بار بار لگایا جا رہاہے کوئی ایسی دستاویزات یا فقط جمع تفریق بھی نہیں جو ستر ارب کے خرچ کو ظاہر کرے، ایل ڈی اے کہتی ہے کہ ٹھیکے باقاعدہ اشتہارات کے بعد کمپنیوں کی پری کوالیفی کیشن کر کے دئیے گئے۔ میٹرو بس پراجیکٹ کے لئے فنڈز کی بھاری ایلوکیشن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس منصوبے کو کرپشن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بہت سار ے لوگ کہتے ہیں کہ پنجاب کے ہزاروں سکولوں کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت ہے مگر اربوں روپے دانش سکولوں پر لگائے جا رہے ہیں مگر اس دلیل کا بہرحال کوئی جواب نہیں کہ یہ دونوں منصوبے ان لوگوں کے لئے ہیں جن کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے اورصوبے کے وسائل پر ان کا حق امراءسے کم نہیں۔ اسی طرح مجھے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ٹیم میں کرپٹ لوگوں کاعنصر نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ شہباز شریف تو کرپشن کانام بھی برداشت نہیں کرتے، پرویز رشید اتنے بااثر ہیں کہ وزراءتک ان سے ڈرتے ہیں مگر مجھے آج تک ان کے بارے کسی مالی سکینڈل کا الزام تک نہیں ملا،معصوم سے اور تھوڑے سے ڈھیلے ڈھالے میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان کو جو مرضی کہہ لیں مگر کرپٹ نہیں کہہ سکتے، خواجہ سلمان رفیق کے پاس اس وقت عملی طور پر صحت کی وزارت ہے ، میں اپنے اس دوست کی روحانیت کے دعووں پر تو شک کر سکتا ہوں مگر اس کی ایمانداری پر مجھے اتنے عرصے میں ایک بار بھی شک نہیں ہوا۔ پرویز ملک پر اعتراض یہ ہے کہ ان کے بھائی مشرف کے ساتھ اور بہن پیپلزپارٹی کی ایم این اے ہیں مگر اس کے باوجود مسلم لیگ نون سے ان کی وابستگی میں کبھی جھول نہیں دیکھا گیا، خواجہ عمران نذیر صحیح معنوں میں ایک سچا او رکھرا سیاسی کارکن ہے۔ زعیم قادری بڑبولا ضرور ہے مگر ابھی تک اطلاعات تو یہی ہیں کہ وہ پرکھوں کی زمینیں بیچ بیچ کے ہی سیاست کر رہا ہے۔ راناثناءاللہ پر سب سے مشہور الزام پلازے کے غیر قانونی ہونے کا لگا، انہوںنے اس کی ثالثی اپوزیشن لیڈر کو دے دی اور اپوزیشن لیڈر اس پر فیصلہ کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کر گئے ۔ ملک ندیم کامران، اقبال چنڑکسی گنتی میں ہی نہیں آرہے اور چودھری عبدالغفور بارے بھی کوئی ٹھوس اطلاع موجود نہیں۔ہاں ملک افضل کھوکھر پر قبضوں کے الزامات ہیں اور اگر یہ سچے ہیں تو مخالفین کو اس پر ضرور کارروائی کرنی چاہئے۔ میں ان سے بہت سارے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں مگر اس کے باوجود ان کے کردار کی گواہی نہیں دیتا صرف اتنا کہتا ہوں کہ عمومی تاثر یہی ہے کہ پنجاب میں حکومتی سطح پر کرپشن نہیں ہو رہی۔یہاں بڑی مچھلیاں او رمگر مچھ نہیں ہیں مگر اس سے انکار نہیں کہ اس کے باوجود تالاب ابھی تک گندا ہے جسے صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ محکموں میں کرپشن پر قابو پانے کے سٹیزن فیڈ بیک سسٹم شروع کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود ایل ڈی اے سمیت کئی اداروں میں کرپشن میں کمی نہیں آئی مگر یہ کہنا بہرحال پنجاب کے عوام اور حکمرانوں سے زیادتی ہے کہ یہ کرپشن کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو فصیح بخاری کا نیب پنجاب کے حکمرانوں کے خلاف الزامات اور تحقیقات کا پہاڑ کھڑا کر چکا ہوتا۔ یہاں فصیح بخاری نے پیپلزپارٹی کے دوستوں کی برہمی کے بعد اپنے بیانات پر سجدہ سہو ادا کر دیا ہے، وہ جو ایک روز قبل تک ملزم سمجھے جا رہے تھے، اگلے ہی روز مدعی بن بیٹھے ہیں، فصیح بخاری نے ترازو ان کے حق میں جھکا دیا ہے جنہوں نے ان پر کرپشن کے الزامات ہونے کے باوجود انہیں کرپشن کے خاتمے کی ذمہ داری دے دی ہے۔