آئےے اےک شمع عبدالقادر ملّا کے لئے جلائےں

آئےے اےک شمع عبدالقادر ملّا کے لئے جلائےں

  

تو بالآخر حسےنہ واجد نے وہ کام کرلےا ،جس کے لئے اس کا اضطراب اُسے نچلا نہیں بےٹھنے دےتا تھا اور وقت کا چناﺅ کون سا کےا ،دسمبر کا ،جو بہرحال ہماری دکھتی رگ ہے،جو ہمےں بہت کچھ ےاد دلانے کے ساتھ ساتھ ہمےں رُلاتا بھی ہے۔اب ہماری حکومت کا طرزعمل ملاحظہ ہو کہ اےک لفظ بھی مذمت کا جو اُن کے لبوں سے نکلا ہو۔کچھ کہا بھی تو بس ےہی کہ ےہ تو بنگلہ دےش کا داخلی معاملہ ہے....    سوال تو اتنا سا ہے کہ دار پر چڑھنے والے کاجرم کےا تھا؟پاکستان سے محبت....پاکستان کو متحد رکھنے کی تمنامےں اُس کی فوج کا ساتھ دےنے کی مجاہدانہ کوشش۔کاش ہم اتنے کمزور نہ ہوتے ۔کاش ہمارا اےمان اتنا مضبوط ہوتا کہ ہم بھرپور طرےقے سے اگر پھانسی کو رُکوا نہ سکتے تو کم ازکم اپنا احتجاجی رےکارڈ تو درج کرواتے۔

آپ ذرا1965کی جنگ کے بعد کے مشرقی پاکستان کی تصوےر دےکھئے، جب علےحدگی کی تحرےکےں مختلف صورتوں مےں خاص ذہنوں سے اُتر کر عوامی رنگوں مےں لپٹ کر سلو پوائنزنگ کی طرح عام آدمی کے قلب و دماغ کو متاثر کررہی تھےں۔اےسے مےں بآواز بلند ےہ کہنا کہ علےحدگی تو کِسی مسئلے کا حل نہےں،شکاےات ہمےں ہےں،بھائےوں کی طرح بےٹھ کر انہےں حل کرنے کی ضرورت ہے....1969ءاور 1970ءمےرا پوربو پاکستان مےں گزرا تھا۔ڈھاکہ ےونےورسٹی سےاست کا گڑھ تھی۔طلبہ کہےں ماﺅ نواز ،کہےں روس نواز،کہےں پروانڈےا تنظےموںمےں بٹے ہوئے علےحدگی کے کھلے عام نعرے لگاتے تھے۔اےسے مےں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شنگھو کے وہ طلبہ ،جنہےں پچھمی پاکستان سے محبت اور ابو الاعلیٰ سے پےار تھا،آپ کو اپنے دل کے کتنے قرےب محسوس ہوتے تھے۔ان کے گھروں مےں اےک مختلف کلچر اور مختلف طرزتمدن کے باوجود کہےں بےگانگی اور اجنبےت محسوس نہےں ہوتی تھی۔وہ روٹی کھانے، لسی پےنے اور شلوار قمےض پہننے والوں سے محبت کرتے تھے۔ مجھے وہ دو لڑکےاں کبھی نہےں بھولتےں۔اےک نے ڈھاکہ ےونےوسٹی کے انتخابات مےں جب کسی نجومی کی پےشگوئی کے مطابق آنے والے وزےراعظم کا نام الف سے شروع ہوگا ،پر اظہار خےال کرتے ہوئے کہا تھا....ابوالاعلیٰ بھی تو ہوسکتا ہے۔

دوسری مےڈےکل کالج مےں پڑھنے والی روانگ کی روہنگےائی نسل کی افسردہ آنکھوں اور زرد چہرے والی ،جس نے تڑپا دےنے والے لہجے مےں کہا تھا،مسلمان کا وطنےت کا تصور بہت گھٹےا ہوگےا ہے،ماےو مےرا دےس تھا،مےرا وطن تھا،مےرے دادا ،پردادا کی ہڈےاں وہےں بنےں اور وہےں سڑےں، پر برما کی اشتراکی حکومت کی سختےوں نے ہمےں دےس بدر ہونے پر مجبور کردےا۔ہم نے تو سوچا تھا کہ ہم دنےا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے دامن مےں پناہ گزےن ہوکر محفوظ ہوگئے ہےں،مگر ےہاں آکر ہمےں احساس ہوا ہے کہ ہم نے غلط جگہ چنی ہے۔تم بتاﺅ ہم کہاں جائےں؟مسلمان کے لئے کون سا گوشہ عافےت رہ گےا ہے۔ےہ سوال 43سال بعد آج بھی مےرے سامنے ہے، بلکہ زےادہ المناک شدت سے ہے۔

آپ لاکھ جماعت اسلامی سے اختلاف رکھتے ہوں،آپ کو اِن کی رخ بدلتی پالےسےوں سے اختلاف ہو،مگر وہ لمحہ آپ کے لئے جذباتی طور پر بہت طمانےت لئے ہوئے ہوتاتھا....توےہی وہ جےالے تھے ،البدرو الشمس کے نوجوان ،جنہوںنے بنگلہ بولنے والی مکتی باہنی کے خلاف آواز بلند کی کہ وہ غےر بنگالےوں کا قتل عام بند کرےں، پھر حالات کے بے قابو ہوجانے پر ہر محاذ پر پاک فوج کے لئے رہبر و رہنما بنے اور دفاع وطن کی شمع پر پروانوں کی طرح نثار ہوئے،لےکن ہمارے پاس انہےں خراج تحسےن پےش کرنے کے لئے دولفظ نہےں۔ہمارے آج کے بچے جانتے ہی نہےںکہ ےہ وہ کون لوگ تھے ،جنہوںنے نظرےہ پاکستان کے لئے اپنی جوانےاں قربان کردی تھےں۔

سچ تو ےہ ہے کہ عبدالقادر ملّا کوپھانسی کی خبر بجلی بن کر حساس پاکستانےوں کے دل پر گری ہے۔ان مےں سے غالباً کسی کی بھی کبھی کوئی ملاقات اُن سے نہےں ہوئی ،نہ کوئی خونی ناتہ ہے اور نہ تعلق،مگر وہ تعلق جس پر ہزار رشتے قربان۔

اب جس جنگی جرائم کے ٹرےبونل نے انہےں فروری مےں عمر قےد کی سزا سنائی تھی ،کورٹ نے اِس سزا کو سزائے موت مےں تبدےل کردےا تھا۔حقےقت ےہ ہے کہ بنگلہ دےش کے بنائے گئے اِس جنگی ٹرےبونل پر انٹرنےشنل ہےومن رائٹس کی تنظمےں شدےد نکتہ چےنی کرتی ہےں۔ان کے اپنے نمائندوں نے حقائق کو جس انداز مےں دےکھا ، رپوٹےں بنائےں اور پےش کےںوہ ،ان سے مختلف ہےں۔ان کا کہنا ہے کہ ٹرےبونل نے جس طرح انصاف کے تقاضوں کی دھجےاں اُڑائی ہےں،اُس کی مثال نہےں ملتی۔

حسےنہ واجد کی حکومت نے جو کرنا تھا ،کرلےا،مگر اُس مرد مجاہد کا کردار تو دےکھئے۔مجھے فےض ےاد آرہا ہے،مَےںنے ان کے اشعار کو زےرلب دہراےا ہے:

جس دھج سے کوئی مقتل کو گےا،وہ شان سلامت رہتی ہے

ےہ جان تو آنی جانی ہے،اِس جاں کی کوئی بات نہےں

اپنے اہل خانہ کو اُس سچے مسلمان کا ےہ کہناکہ مےرے لئے آنسو نہ بہانااور نہ ہی کوئی فرد رحم کی اپےل کرے۔مَےں جانتا ہوں ،مَےں سےدھے اور سچے راستے پر ہوں۔مےری شہادت کے بعد کارکن اشتعال انگےزی نہ کرےں۔بنگلہ دےش کے اندر قانونی اور آئینی طرےقے سے اسلام کو پھےلانے اور اس کے نفاذ کی کوشش ہو،سبحان اللہ....خدا دنوں کو قوموں کے درمےان پھےرتا ہے، انشاءاللہ وہ وقت ضرور آئے گا، جب اےسے شہدا کی قربانےاںرنگ لائےں گی اور صاحب اےمان لوگ اٹھےں گے جو حق اور سچ کا علم اٹھاےں گے۔

خدا رحمت کند اےں عاشقانِ پاک طےنت را

مزید :

کالم -