بہاولنگر:بے حالی سے بحالی
آپ ماڈل ٹاﺅن میں واقع اپنی رہائش گاہ سے گاڑی پر نکلتے ہیں، پہیے سڑک سے مَس ہوتے ہی آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی سواری اونٹ کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ آپ ”ہر لحظہ ہے سوار کی نئی شان نئی آن“ کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ایک لحظہ میں آپ کا معدہ، مُنہ کو آتا ہے، تو ایک لحظہ جگر، کلیجے سے بغلگیر ہوا چاہتا ہے، خیر کچھ وقت کی شتر سواری کے بعد آپ پھر کار میں لوٹ چکے، کیونکہ خستہ حال سڑک عبور ہو چکی۔ یک بیک آپ کی نگاہ کسی سڑک کنارے پارک پر جا ٹکی۔ بکھری ہوئی ردی، روڑی اور استعمال شدہ شاپروں نے آپ کو خوش آمدید کہا۔ کچھ حصے میں ہریالی اور بقیہ میں خشک سالی، بھلا سا نظارہ پیش نظر، بھینس و گائے ہمجولیوں سمیت سیرو تفریح کے لئے یہاں کا رُخ کرتی ہیں۔ گدھے اور کتے بھی کھیل کود کے لئے یہاں آتے ہیں۔ ماڈل ٹاﺅن کے تمام پارکس انہی” بے مثال خوبیوں“ کا مرقع ہیں۔ قریب ہی ایک خالی پلاٹ میں سیوریج کا بے لگام پانی، نکاسی ¿ آب کے غیر مستقل نظام کے خلاف دھرنا دیئے ہوئے ہے۔ بعض خالی پلاٹس میں پڑے کوڑے کے ”دلکش ڈھیر“ آنکھوں کی طراوت کا سامان کر رہے ہیں۔ جی، درست پہچانا! یہ ماڈل ٹاﺅن لاہور نہیں، یہ ماڈل ٹاﺅن بہاولنگر ہے۔ اول الذکر وزیر کی دھرتی اور ثانی الذکر فقیر کی بستی دکھائی دیتی ہے۔
اب آپ ہارون آباد روڈ سے بہاولی چوک کی طرف رواں دواں ہیں کہ آپ کی کار کے سامنے اچانک ایک چاند گاڑی کے پائلٹ نے180 کے زاویے پر چاند گاڑی کو گھما دیا۔ آپ بے بسی اور بے کسی سے تکتے رہ گئے۔ چند سو میٹر کے بعد سڑک کی وسعت کم ہونے لگی اور وہ گینڈے سے گلہری ہو چکی۔ بہاولی چوک کے قریب پہنچ کر آپ مشینی اور حیوانی انجنوں کے شور اور ٹریفک کے میلے میں گھر چکے۔ آپ کی کار میں ”کار ٹو ہیلی کاپٹر“ کا آپشن تو ہے نہیں، آپ ہارن سے ہی درد کا درماں کرتے ہیں.... (مقامی انتظامیہ کی کرم فرمائی کے باعث بیرون شہر اڈے منتقل ہوئے، مفادات پر زد لگی، تو مخصوص عناصر عدالت تک جا پہنچے اور عوام پھر ٹریفک کے میلے اور جھمیلے میں ہیں).... پھر آپ نے بہاولی چوک سے بوائز ڈگری کالج تک کی سڑک کو اور بلدیہ روڈ کی وسعت کو گینڈے سے گلہری ہوتے دیکھا۔ آپ نے سوچا کہیں یہ وہم تو نہیں، پھر آپ کو یاد آتا ہے کہ بہاولنگر شہر میں میڈیکل کالج کی تعمیر بھی تو وزیراعلیٰ کے اعلان کے با وجود ایک سال سے التوا میں ہے۔ پھل اور سبزی منڈی کا سنگ بنیاد وزیراعلیٰ نے جولائی2009ءمیں رکھا، وہ ابھی تک نامکمل ہے۔ آپ کا وہم رفع ہو چکا۔
بجا کہ محترم وزیراعلیٰ نے بہاولنگر میں رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا، وائلڈ لائف پارک کی تجدید نو کی اور بعض سڑکوں کی تعمیر نو کو ممکن بنایا، لیکن بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مندرجہ بالا مسائل کے علاوہ ہارون آباد روڈ پر واقع کئی ایک صنعتی یونٹس کو سمال انڈسٹریل ایریا قرار دیا، بجلی کے انڈسٹریل فیڈر کی فراہمی اور وہاں پینے کے پانی کی دستیابی کا دیرینہ مطالبہ توجہ چاہتا ہے۔ اسی روڈ پر واقع سیم نہر جو انتہائی فائدہ کی حامل ہے، لیکن عدم مرمت اور بے توجہی کے سبب بے وقعت ہو رہی ہے، نظر کرم کی طالب ہے۔ بائی پاس کی تکمیل کرتے ہوئے ہارون آباد روڈ کو منچن آباد روڈ اور پھر عارف والا روڈ سے ملانے کا منصوبہ نہایت ضروری ہے۔ بہاولنگر تا بہاولپور روڈ بھی مرمت و توسیع کی متقاضی ہے۔
پانچ تحصیلوں اور8878 مربع کلو میٹر میں پھیلا، ستلج کے کنارے واقع اور ہندوستان کی سرحد سے ملحق یہ ضلع طالب التفات ہے۔ مانا کہ بہاولنگر لاہور کی مانند تاریخ و تہذیب کا مجسمہ نہیں، تسلیم کہ فیصل آباد کی مانند تجارت و مال کا مرکز نہیں، بجا کہ راولپنڈی کی مانند سر کا تاج نہیں، لیکن پنجاب کا حصہ ہے، انسانوں کا آشیانہ ہے، چیونٹیوں کا ٹھکانہ نہیں۔ اس کا نالہ بھی وزیراعلیٰ ہی کو سننا ہے.... اگر وزیراعلیٰ صرف پانچ پسماندہ ضلعی ہیڈ کوارٹرز کو ایک ”ماڈل ڈسٹرکٹ پراجیکٹ“ ترتیب دے کر تعمیر و ترقی کے لئے منتخب کر لیں اور ان پر توجہ مبذول رکھیں، تو لاکھوں افراد کی زندگیاں سنور جائیں گی۔ ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر کی ترقی اس کے ساتھ منسلک تحصیلوں کے لئے بھی خوشحالی کا راستہ ہے۔ اگر یہ نہیں تو پنجاب میں36اضلاع ہیں، وزیراعلیٰ ہر ضلع کو سال میں اوسطاً دو دن عطا کریں تو 72 ایام ہوتے ہیں۔ کیا ایک ضلع کا اتنا حق نہیں؟
” بخت لاہور“ بلند ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں.... ”تخت لاہور“ کی اصطلاح میں البتہ مبالغہ تھا۔ وزیراعلیٰ کی لاہور پر بے انتہا کرم فرمائی اور دیگر شہروں سے بے اعتنائی،کہیں اس اصطلاح کو مستقبل میں حقیقت نہ بنا دے۔ اگر اربوں روپے میٹرو بس، لیپ ٹاپس، سولر لیمپس، آشیانہ سکیم اور تزئین لاہور پر خرچ ہو سکتے ہیں تو بہاولنگر کی تعمیر و ترقی پر کیوں نہیں؟ یہ محروم لوگ، یہ معصوم، لوگ، صحت و سہولت چاہتے ہیں۔ اِس بستی کو بھی نکھار درکار ہے، پیار درکار ہے۔ پیرس فیشن و سٹائل کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ وینس ندیوں کی وجہ سے مقبول ہے۔ دمشق قدامت و تاریخیت کے سبب توجہ کا مرکز ہے۔ کچھ شہر تمام عالم میں مشہور ہوتے ہیں، کچھ صرف اپنے ملک میں اور کچھ اپنے میں بھی گمنام ہوتے ہیں۔ بہاولنگر ایک ”گمنام“ شہر ہے، اسے ”گمشدہ“ نہ سمجھئے۔ ٭