عبدالقادر ملّا شہید(2013ئ-1948ئ)

عبدالقادر ملّا شہید(2013ئ-1948ئ)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پہلے یوم پاکستان 14 اگست1948ءکو مشرقی پاکستان کے ضلع فرید پور میں ایک گاﺅں امیر آباد کے ایک متوسط درجے کے معزز گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس عظیم بچے کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی گئی۔ بچے کا نام عبدالقادر رکھا گیا۔ ملّا ان کا فیملی نام تھا۔ عبدالقادر ملّا نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی۔ وہ بچپن ہی سے نہایت سنجیدہ اور محنتی تھے۔ بچوں کی سی شرارتیں ان کے اندر بہت کم دیکھی گئیں۔ ان کے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ زندگی بھر اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے۔ ان کے بچپن کے ساتھیوں نے ان کی سنجیدگی و متانت کی وجہ سے ہمیشہ ان کی عزت کی، خواہ ان کے ساتھ اختلافات بھی رکھتے ہوں۔ راجندرہ کالج فرید پور سے عبدالقادر ملّا نے سائنس کے مضامین میں 1968 ءمیں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ اسی کالج میں تعلیم کے دوران وہ 1966ءمیں اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) میں شامل ہوئے۔ مقامی جمعیت کے ناظم بھی رہے اور کالج کی مختلف سوسائٹیوں میں بھی کئی مناصب پر ان کو کامیابی حاصل ہوئی۔
بی ایس سی کرنے کے بعد 1968ءہی میں عبدالقادر ملّا نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں پوسٹ گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا۔ یہاں بھی وہ جمعیت کے اہم رہنماﺅں میں شمار ہوتے تھے۔ جناب مطیع الرحمان نظامی اور عبدالمالک شہید کے ساتھ انہوں نے اس عرصے میں جمعیت کے پلیٹ فارم سے اسلام کے لئے شاندار جدوجہد کی تاریخ رقم کی۔ اسی زمانے میں ان سے غائبانہ تعارف ہوا۔ ان کے ناظم عبدالمالک شہید میرے ساتھ دو مرتبہ اسلامی جمعیت طلبہ کی مرکزی مجلس شوریٰ میں کل پاکستان بنیاد پر رکن منتخب ہوئے۔
عبدالمالک شہید کو اگست 1969ءمیں ڈھاکہ یونیورسٹی میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ غنڈوں نے نہایت سفاکی کے ساتھ شہید کر دیا تھا۔ عبدالمالک کی شہادت سے اسلامی جمعیت طلبہ کا ہر کارکن ملک کے دونوں حصوں میں بہت آزردہ اور غم زدہ تھا۔ خود سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ان کی شہادت پر شدید الم و کرب کے انداز میں تعزیتی بیان جاری کیا تھا، جس میں فرمایا تھا کہ عبدالمالک کی شہادت (راہِ حق میں) پہلی تو ہوسکتی ہے، آخری نہیں۔ عبدالمالک کی شہادت پر مارشل لا کے دور میں بھی مشرقی و مغربی پاکستان میں طلبہ نے بھرپور احتجاج کیا۔ لاہور میں ہم نے دو پروگرام کئے، ایک تو ناصر باغ میں بہت بڑا تعزیتی جلسہ اور غائبانہ نماز جنازہ تھی اور دوسرا سعید منزل نیوانارکلی کی چھت پر تعزیتی ریفرنس۔ میری دونوں پروگراموں کی تقاریر پر میرے خلاف مارشل لاءکے تحت مقدمات قائم ہوئے اور مجھے جیل بھیج دیا گیا۔ میری رہائی کے لئے مشرقی پاکستان میں جمعیت نے بڑے مظاہرے کئے۔ مجھے بعد میں مشرقی پاکستان سے آنے والے ہر ساتھی نے بتایا کہ وہ نعرہ لگاتا تھا : ”ادریس بھائی، مکتی چائی“ یعنی ادریس بھائی کو رہا کرو“۔عبدالقادر مُلّا جب 2002ءمیں پاکستان تشریف لائے تو ان سے کافی طویل اور مفید ملاقاتیں رہیں۔ وہ اس وقت ڈھاکہ جماعت کے امیر تھے اور راقم الحروف امیر جماعت اسلامی پنجاب کے طور پر خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ دورِ طالب علمی اور میری گرفتاری ورہائی کا بھی انہوں نے بالخصوص تذکرہ کیا۔
عبدالقادر مُلّا نے اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ملازمت شروع کی، مگر ساتھ ہی جماعت کی رکنیت بھی اختیار کرلی۔ ان کا تقرر بطور سینئر ٹیچر بی ایس نور محمد پبلک کالج میں ہوا ،جہاں انہوں نے چند سال فرائض سرانجام دیئے۔ بعد میں وہ اس ادارے کے پرنسپل بھی رہے۔ عبدالقادر ملّا کو صحافت سے دلچسپی تھی اور ان کی ڈگری انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے میں تھی۔ ان کو دو مرتبہ رپورٹرز یونین کا ممبر اور وائس پریذیڈنٹ بھی منتخب کیا گیا۔ عبدالقادر مُلّا جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔وہ ڈھاکہ کے امیر، مرکزی شوریٰ کے رکن اور پھر مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بنگلہ زبان میں جماعت اسلامی کے معروف روزنامے ”سنگرام“ کے ایڈیٹر تھے۔ ان پر 18دسمبر2011ءکو 1971ءکے واقعات کی بنیاد پر جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران ڈھاکہ کے علاقے میرپور میں 344آدمیوں کو قتل کیا۔ اس کے علاوہ یہ جھوٹے الزامات بھی لگائے گئے کہ انہوں نے آتش زنی او ر عصمت دری کا ارتکاب کیا ہے ۔ واضح رہے کہ وہ اس زمانے میں ڈھاکہ میں موجود ہی نہیں تھے۔ ان کے کیس کے بارے میں ہم کسی اور مضمون میں تمام حقائق قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
جو لوگ عبدالقادر مُلّا کو جانتے ہیں، وہ خدا کو حاضر ناظر جان کر بغیر کسی خوف کے یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات لغو، بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ عبدالقادر مُلّا نہایت رحم دل، نیک نفس، پاکباز اور خوفِ خدا سے مالامال مخلص مسلمان تھے۔ ان کو نام نہاد ٹربیونل نے عمر قید کی سزا سنائی تھی ،جس کے خلاف بنگلہ دیش حکومت نے اپیل کی تو سپریم کورٹ نے ان کی عمر قید کو سزائے موت میں بدل دیا، پھر ان کی نظر ثانی کی درخواست سنجیدگی سے سماعت کے بغیر ہی مسترد کردی گئی۔ 12اور13دسمبر کی درمیانی رات کو مقامی وقت کے مطابق سوا نو بجے انھیں تختہ¿ دار پر لٹکا دیا گیا۔
عبدالقادر مُلّا کے اس عدالتی اور ظالمانہ قتل کے بعد ان کی میت کو سرکاری حراست میں ان کے گا¶ں لے جاکر فجر کی اذانوں سے پہلے ہی دفن کردیا گیا۔ نہ تو ان کے اہل خاندان ان کے جنازے میں شریک ہوسکے ، نہ ان کے لاکھوں عقیدت مندوں کو ان کا جنازہ پڑھنے کا موقع دیا گیا۔ عبدالقادر مُلّا نے آخری وقت میں اپنے اہل وعیال سے ملاقات کے دوران اپنے بیٹے حسن جمیل کو وصیت فرمائی کہ نہ تو وہ ان کی شہادت پر آنسو بہائیں اور نہ ہی ظالم حکمرانوں سے رحم کی اپیل کریں۔ شہید کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ شہید نے اپنی بیوی کے نام خط میں بہت ایمان افروز نصیحتیں تحریر کی ہیں۔
شہید وطن عبدالقادر مُلّا کے اہل خانہ جب آخری بار جیل میں ان سے ملے تو انہوں نے ان کو وصیت کی:” میری شہادت کے بعد تحریک اسلامی کے سارے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان صبر و استقامت کے ساتھ میرے خون کو اقامتِ دین کے کام پر لگائے۔ کسی طرح کے بگاڑیا فساد میں ہمارے وسائل ضائع نہیں ہونے چاہئیں، جن لوگوں نے میرے لیے احتجاج کرتے ہوئے جان دی ہے ،ان لوگوں کی قبولیتِ شہادت کے لئے اللہ سے دعا کرتا اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یک جہتی وہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ اللہ سب کو آخرت میں کامیاب کرے۔مَیں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مکمل غیرقانونی انداز میں یہ حکومت مجھے قتل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مَیں مظلوم ہوں، میرا قصور صرف یہ ہے کہ مَیں نے تحریک اسلامی کی قیادت کی۔ صرف اس وجہ سے مجھے حکومت قتل کررہی ہے۔ مَیں اللہ، اس کے رسول اور قرآن وسنت پر ایمان رکھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری یہ موت شہادت کی موت ہے اور شہیدوں کی جگہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اللہ اگر مجھے شہادت کی موت دے دے تو یہ میری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہوگا،اس کو مَیں اپنے لئے افتخار سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ حکومت 14دسمبر کو مجھے قتل کرنا چاہ رہی تھی ،لیکن اللہ نے میری موت کا فیصلہ اس وقت نہیں کیاتھا، جب اللہ کا فیصلہ ہوگا، تب ہی موت آئے گی۔ شہادت کی موت سے بڑھ کربڑا اعزاز اور کیاہوسکتا ہے؟ مَیں ہمیشہ اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں اور آج بھی کررہا ہوں کہ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرمائے۔
 میری درخواست ہے کہ میری شہادت کے بعد تحریک اسلامی کے کارکن استقامت کا ثبوت دیں۔ ان کو کوئی غیرقانونی طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ تحریک کے کارکنوں کے لئے میرا پیغام ہے کہ شہادت کے خونی راستے کے ذریعے سے فتح ضرور آنے والی ہے۔ اللہ جس کی مدد کرتا ہے ،کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ عبدالقادر مُلّا کو قتل کرکے ظالم حکمران اسلام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں ،مگر مَیں یقین رکھتا ہوں کہ میری شہادت کے ہر قطرہ¿ خون سے تحریک اسلامی مزید آگے بڑھے گی اور یہ ظالم حکومت کی تباہی کا باعث ہوگی۔ وہ اپنی اہلیہ کو کہتے ہیں کہ مَیں خاندان کا ذمہ دار اور کفیل تھا، میرے بعد میرا اللہ خود اس کا ذمہ دار اور محافظ ہے۔ تمہارا کام صرف دیکھ بھال کرنا ہے۔ مَیں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اس ذمہ داری کے بعد اللہ تمہیں میرے پاس لے آئے۔ عبدالقادر مُلّا نے کہا کہ مَیں نے احتجاجی تحریک کے دوران دیکھا کہ دس سال کے معصوم بچوں تک کو بھی قتل کیا گیا ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کے خون سے پورا ملک خون آلود ہے، اس کا پورا بدلہ اللہ ضرور دے گا۔ مَیں جس مشکل صورت حال سے دوچار ہوں، اس میں سارے مسلمانوں سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ میری یہ تمنا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ میری زندگی کے بدلے میں تحریک اسلامی اور ملک کی آزادی کوقائم ودائم رکھے“۔
 اپنے آخری خط میں جو تختہ¿ دار کی طرف جانے سے کچھ لمحات پہلے لکھا، وہ تحریر فرماتے ہیں:
”بسم اللہ الرحمن الرحیم وبہ نستعین
قیدی نمبر379، سکنہ: کال کوٹھڑی، سنٹرل جیل ڈھاکہ
مجھے نئے کپڑے فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ نہانے کا پانی بالٹی میں موجود ہے۔ سپاہی کا آرڈر ہے کہ جلد از جلد غسل کرلوں۔ کال کوٹھڑی میں بہت زیادہ آنا جانا لگا ہوا ہے۔ ہر سپاہی جھانک جھانک کر جارہا ہے۔ کچھ کے چہرے افسردہ اور کچھ چہروں پر خوشی نمایاں ہے۔ ان کا بار بار آنا جانا میری تلاوت میں خلل ڈال رہا ہے۔ میرے سامنے سیّد مودودیؒ کی تفہیم القرآن موجود ہے، ترجمہ میرے سامنے ہے: غم نہ کرو، افسردہ نہ ہو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو“۔ سبحان اللہ! کتنا اطمینان ہے ان کلمات میں.... میری پوری زندگی کا حاصل مجھے ان آیات میں مل گیا ہے.... زندگی اور موت کے درمیان کتنی سانسیں ہیں، یہ رب کے علاوہ کوئی نہیں جانتا.... مجھے اگر فکر ہے تو اپنی تحریک اور کارکنان کی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان سب پر اپنا فضل اور کرم قائم رکھے۔ آمین
اللہ پاکستان کے مسلمانوں اور میرے بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر آسانی فرمائے۔ دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنادے۔ (آمین)۔ عشاءکی نماز کی تیاری کرنی ہے، پھر شاید وقت ملے نہ ملے؟
میری آپ سے گزارش ہے کہ ہم سب نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس پر ڈٹے رہیں.... مَیں دیکھ رہا ہوں کہ یہ راستہ سیدھا جنت کی طرف جاتا ہے۔
آپ کا مسلمان بھائی
عبدالقادر مُلّا“
عبدالقادر مُلّا کی شہادت پر حکمرانوں نے، جس انداز میں ان کو دفن کیا ہے۔ اس سے ان کی اسلام دشمنی، بزدلی اور ظالمانہ ذہنیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ عبدالقادر مُلّا شہید ہر لحاظ سے عظیم تھے۔ انہوںنے، جس جرا¿ت کے ساتھ پھانسی کے پھندے کو چوما اس نے عبدالقادر عودہ شہیدؒ(1954ئ) اور سید قطب شہیدؒ(1966ئ) کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ ان کا خط ایک ایسی دستاویز ہے جو قیامت تک اہل حق کے لیے روشنی اور عزیمت کا سامان فراہم کرتا رہے گا۔ چوری چھپے ان کا جنازہ پڑھانے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس مردِ مجاہد اور عظیم شہیدِوفا کے جنازوں میں پورے عالم اسلام حتّٰی کہ مغربی دنیا میں بھی اہل اسلام نے جس محبت وعقیدت کے ساتھ شرکت کی ہے وہ ایک میزان ہے، جس میں کھرے اور کھوٹے کو تولا جاسکتا ہے۔    ٭

مزید :

کالم -