تیل کی ارزانی کے بعد مہنگائی کم کرنے کی ضرورت
وزیراعظم محمد نوازشریف نے موٹروے کے نئے مرحلے کا افتتاح کرتے ہوئے چکوال میں کہا ’’ہم نے مہنگائی کی کمرتوڑ دی ہے‘‘ وزیراعظم نے اس حوالے سے پٹرولیم اور بجلی کے نرخوں میں کی جانے والی کمی اور مزید کمی کی خوشخبری دینے کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حکومتی اقدامات سے اقتصادی ترقی ہو گی صنعت کا پہیہ چلے گا اور لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔وزیراعظم نے حکومتی اقدامات کے بارے میں جو کچھ کہا وہ درست ہے اور ان کی حکومت نے تیل اور بجلی کے نرخوں میں جو کمی کی اور مزید کمی کرنے والی ہے اس کے منطقی اثرات یہی ہونا چاہئیں، تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو یا تو حالات اور حقائق سے آگاہ نہیں کیا جا رہا یا پھر وہ منتظر ہیں کہ ان کے اقدامات کے اثرات مرتب ہوں اور اس میں شاید دوچار دن لگیں، لیکن عملی صورت یہ نہیں۔
حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں معمولی کمی ہوئی لیکن اثرات اشیاء ضرورت اور خوردنی پر نہیں پڑے۔ کرایوں میں بھی کمی انٹرڈسٹرکٹ اور گڈز ٹرانسپورٹ میں پانچ سے سات فیصد ہوئی۔ لوکل ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں صرف ایک روپیہ کم کیا گیا، تاہم فروٹ، سبزیوں، دالوں، کھانے پینے کی اشیاء گارمنٹس اور دوسری اشیاء کے نرخ کم نہ ہو سکے بلکہ بعض سبزیوں اور پھلوں کی قیمت میں اضافہ ہوگیا حتیٰ کہ ایل پی جی کی قیمت دوبار بڑھا کر مجموعی طور پر پچیس روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھا۔وزیراعظم اور ان کی حکومت نے جو کیا اچھا کیا اس کی تعریف اپنی جگہ لیکن ملک میں منافع خوری کا جو رجحان پیداہو چکا ، وہ قابو میں نہیں آ رہا۔ یہاں ذخیرہ اندوزی کے ذریعے منافع خوری بھی ہوتی ہے، یہ تو سرکاری مشینری کا فرض ہے کہ وہ ایسے عوام دوست اور مثبت اقدامات کے اثرات عوام تک پہنچانے کا اہتمام کرے اور جو اس کے مخالف عمل کررہے ہیں ان کا محاسبہ کیا جائے۔ہم تو وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں اور حکومتی کار پردازوں کی توجہ مبذول کرا سکتے ہیں کہ وہ اس امر کا اہتمام کریں کہ عوام کے لئے جو کیا جا رہا ہے، اس کا فائدہ بھی ان کو ملے۔