پشاور میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی
پشاور کے سکول میں تاریخ کی بدترین دہشتگردی ہوئی ہے دہشتگردوں کے سنگدلانہ حملے میں تادمِ تحریر سکول کے 132بچے شہید اور تقریباً 121 زخمی ہو گئے، پورا ملک سوگوار ہے اور پشاور کے ہر محلے میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔اس المناک واقعہ کے فوری بعد وزیراعظم محمد نواز شریف اسلام آباد اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کوئٹہ میں اپنی مصروفیات ترک کر کے فوری طور پر پشاور پہنچ گئے، وزیراعظم نے اس واقعہ کو قومی سانحہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پشاور میں ہونے والا نقصان میرا ذاتی اور قومی نقصان ہے۔چیف آف آرمی سٹاف نے کہا دہشتگردوں نے قوم کے دل پر حملہ کیا ۔ سکول میں فوجی دستوں کی جانب سے ریسکیو آپریشن جاری ہے، چھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے تاہم جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں اطلاعات ہیں کہ بعض دہشت گرد ابھی تک سکول میں موجود ہیں، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ دہشت گرد ایف سی کی وردیاں پہن کر سکول میں داخل ہوئے۔
آپریشن ضربِ عضب کے باوجود ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا نیٹ ورک پوری طرح تباہ نہیں ہوا ہے، شمالی وزیرستان میں 90فیصد علاقہ دہشت گردوں سے صاف کرا لیا گیا ہے، ان کا نیٹ ورک تباہ کر دیا گیا ہے، اسلحے کی فیکٹریاں اور گودام بھی ختم کر دئے گئے ہیں۔ اس آپریشن میں اب تک 1800دہشت گرد مارے گئے ہیں، لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آپریشن کے آغاز میں اگر بعض دہشت گرد وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے تو انہوں نے دوبارہ اپنی قوت کو مجتمع کر لیا ہے اور جہاں موقعہ ملتا ہے وہ دہشت گردی کی واردات کر گزرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی حالیہ ہفتوں میں انہوں نے اِکا دُکا بڑی وارداتیں کیں، لیکن اہداف حاصل نہ کر پائے اور خودکش بمباروں نے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی خود کو اڑا لیا یا جوابی کارروائی میں مارے گئے۔پشاور کے سکول میں دہشت گردی کی یہ واردات اس لحاظ سے بھی افسوسناک ہے کہ دہشت گردوں نے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کونشانہ بنایا ہے، جن کے ابھی کھیل کود کے دن تھے۔ یہ بچے پاکستانی قوم کا مستقبل ہیں، مُلک کا ہر شخص اس سانحے پر خون کے آنسو رو رہا ہے اور اس واقعہ کے بعد پورے مُلک میں سوگ اور اداسی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔
سنگ دل دہشت گردوں سے تو کچھ بعید نہیں، اُن سے ایسی مزید سنگدلانہ وارداتوں کی توقع بھی کی جا سکتی ہے، جن لوگوں کو برین واش کر کے ایسی وارداتوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں، ایسی شقاوت قلبی کی وارداتیں پتھر دل لوگوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتیں، لیکن ایسی وارداتیں روکنے کے لئے جو کچھ ہم کر سکتے ہیں وہ تو کیا جانا چاہئے۔گزشتہ کئی وارداتوں میں دیکھا گیا ہے کہ دھوکہ دہی کے لئے سیکیورٹی اداروں کی وردیاں استعمال کی گئیں، اس واردات میں بھی ایسا ہی ہوا اور دہشت گرد دھوکہ دے کر سکول میں داخل ہو گئے، دہشت گردی کی وارداتوں کے تفصیلی تجزیئے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ اِن کو ٹرینڈ کرنے والے لوگ بہت ہوشیار ہیں وہ واردات کے لئے اپنے ہدف کا انتخاب بھی طویل منصوبہ بندی کے بعد کرتے ہیں، اس کے مختلف پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بھی حساب لگاتے ہیں کہ دہشت گردی کی کا میاب واردات کے بعد اس کے اثرات کہاں کہاں محسوس کئے جائیں گے۔ وہ اس سے پہلے سیکیورٹی اداروں کے تربیتی مراکز کو بھی خصوصی طور پر نشانہ بنا چکے ہیں، اب بھی انہوں نے ملٹری سکول کو ہدف بنایا ہے، جس سے دہشت گرد یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ضربِ عضب کا بدلہ لینے کے لئے ہر اُس مقام کو نشانہ بنائیں گے، جس کا تعلق کِسی نہ کِسی انداز میں سیکیورٹی کے ساتھ ہے۔ آرمی پبلک سکول میں جو بچے زیر تعلیم ہیں، ان میں سے بیشتر نے تعلیم کی تکمیل کے بعد آرمی سے وابستگی اختیار کرنا ہوتی ہے ویسے بھی صوبہ خیبرپختونخوا کے مکین مارشل ریس سے تعلق رکھتے ہیں اور مادرِ وطن کے دفاع کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہتے ہیں، اس وقت بھی شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں آپریشن جاری ہے اور خیبرایجنسی میں کامیاب آپریشن سے بچ نکلنے والے لوگوں کا اِس واردات سے تعلق ہو سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ دہشت گردی کے گڑھ شمالی وزیرستان سے اُن کا صفایا کر دیا گیا ہے اور وہ جس طرح کی وارداتیں کرتے رہتے تھے اب وہ اُن کے بس میں نہیں، لیکن چند دہشت گرد مل کر کسی ادارے کو یرغمال بنا لیں یا اس کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں تو اُن پر قابو پاتے پاتے بہت ہی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور بظاہر ایسا ہی وارسک روڈ کے اس سکول میں ہوا ہے۔ یہ سکول پشاور کے تعلیمی اداروں میں ممتاز مقام رکھتا ہے اور شہر کے پوش علاقے میں واقعہ ہے۔ پتہ چلانا چاہئے کہ چھاؤنی کے اس علاقے میں جہاں عمومی سیکیورٹی بھی شہر کی نسبت بہتر ہوتی ہے دہشت گرد کِس طرح واردات کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس واردات میں ہمارے لئے یہ سبق بھی پوشیدہ ہے کہ شمالی وزیر ستان کے بڑے آپریشن کے بعد بھی ہم مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ سکتے اور ہمیں ہمہ وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تو پورا ملک ایک طرح کی حالتِ جنگ میں ہے اور اس حالت میں بہت سے معمولات ترک کر کے جنگی بنیادوں پر ہر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مُلک کے ہر چھوٹے بڑے ادارے اور مقام کی سیکیورٹی کے پورے پلان کا جائزہ لے کر اسے از سر نو ترتیب دینا ہو گا۔ دہشت گرد اگر دہشت گردی کی جدید ٹیکنیکس استعمال کر رہے ہیں تو ان سے نپٹنے کے لئے بھی جدید تر طریقے اپنانے ہوں گے، متروک طریقِ کار سے اب اُن کے ساتھ نپٹنا مشکل ہو گا۔ دہشت گردوں نے جو ’’طریقِ جنگ‘‘ اپنا رکھا ہے اس میں دھوکہ دہی اور ناگہانیت جیسے عناصر بھی شامل ہیں اور لگتا ہے وہ اب انہی دو طریقوں سے زیادہ کام لیتے ہیں، پہلے انہوں نے محرم الحرام میں واہگہ کی سرحد کو اس مقصد کے لئے منتخب کیا اور اب پشاور میں بدترین دہشت گردی کر ڈالی بہت سے مقامات پر انہوں نے سیکیورٹی اداروں کی وردیاں پہن کر ہی کامیابی حاصل کی، اس لئے چیکنگ پر مامور عملے کو اس بات کی خصوصی تربیت دینی چاہئے کہ وہ محض وردی سے متاثر نہ ہوں اور یہ دیکھیں کہ جس شخص نے وردی پہن رکھی ہے وہ جعلی تو نہیں۔ دہشت گردوں کے علاوہ بھی مختلف شہروں میں لوگ پولیس کی وردیاں پہن کر ڈاکہ زنی کی وارداتیں کرتے رہتے ہیں اور پکڑے بھی جاتے ہیں، اس طرح عام شہریوں کو دھوکا دیکر لوٹنا آسان ہوتا ہے اس لئے وردیوں سے دھوکہ کھانے کا سلسلہ اب ختم ہو جانا چاہئے اور سیکیورٹی پر متعین عملے کو جدید خطوط پر منظم کرنا چاہئے۔روٹین میں اور سرسری چیکنگ کا طریقِ کار اب فرسودہ ہو چکا ہے اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔ سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کر کے آئندہ پشاور جیسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے اور اہلِ وطن کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔