شام کی صورتحال، روس اور امریکہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں
تجزیہ: آفتاب احمدخان:
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی ماسکو میں روسی صدر پیوٹن سے ملاقات میں جمعہ کے روز نیویارک میں شام کی صورتحال سے متعلق عالمی طاقتوں کی بات چیت میں روس کی شرکت تو یقینی ہوگئی ہے مگر صدر بشارالاسد کے مستقبل کا معاملہ ابھی تک معلق ہے اور جان کیری کے دورۂ روس سے بھی اس معاملے میں کوئی اتفاق رائے نہیں پایا گیا۔ یہ بھی ابھی تک واضح نہیں کہ بات چیت کے تیسرے دور میں روس ویٹو کرے گا یا معاملات کچھ آگے بڑھ سکیں گے۔
انٹرنیشنل سیرئین سپورٹ گروپ کے اس اجلاس میں شام کی حکومت اور اس کے مخالفین کے درمیان مذاکرات کرانے کیلئے کوئی راستہ تلاش کیا جائے گا تاکہ فریقین کے درمیان فائر بندی ہوسکے اور ملک میں امن قائم کیا جاسکے۔ روس نے اس اجلاس میں شرکت کا وعدہ کیا ہے جس سے کم از کم شام کے موجودہ حالات پر بات تو ہوسکے گی۔ شام میں روس اور امریکہ ایک دوسرے کے خلاف کردار ادا کر رہے ہیں۔ روس صدر بشارالاسد کا حامی ہے جبکہ امریکہ مخالف۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے بھی جان کیری کے دورے کو مثبت قرار دیا ہے تاہم روس اپنے موقف پر قائم ہے کہ صدر بشارالاسد کے مقدر کا فیصلہ شام کے عوام کو کرنا چاہئے بڑی عالمی طاقتوں کو نہیں۔ اس کے برعکس امریکہ سمجھتا ہے کہ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے عبوری عرصے میں بشار الاسد کا اقتدار سے الگ ہونا ضروری ہے۔ 2012ء کے جنیوا معاہدے کے تحت یہ عبوری مدت چھ ماہ ہوگی، سپورٹ گروپ کے اجلاس میں اس حوالے سے مزید تجاویز آنے کا امکان ہے۔ فی الحال روس کا رویہ مفاہمانہ ہے مگر اجلاس میں بیٹھ کر ہی معلوم ہوگا کہ روس اور امریکہ مل کر شام کیلئے کچھ کرسکتے ہیں یا ان کے راستے الگ الگ رہیں گے۔
صدر بشارالاسد کا ابھی تک اصرار ہے کہ وہ اپنے مخالف مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ عراق کو صدر کے مخالفین کے علاوہ داعش کی کارروائیوں کا بھی سامنا ہے جس نے شام اور عراق کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ روسی فضائیہ کی بمباری کا نشانہ بشارالاسد کے براہ راست مخالفین ہیں جبکہ امریکی فوجی کارروائیاں داعش کے خلاف ہیں۔ بڑی طاقتوں کی اس تقسیم نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور صدر بشارالاسد کا کہنا ہے کہ امریکہ دہشٹ گرد گروپوں کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا ہے، وہ مسئلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کیلئے دو میں سے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسلح جدوجہد چھوڑ کر حکومت میں شامل ہو جائیں یا عام شہری کے طو رپر زندگی گزاریں۔
اب دنیا کی نظریں جمعہ کے ر وز نیویارک میں ہونے والے بڑی طاقتوں کے اجلاس پر لگی ہوئی ہیں۔ اگرچہ بادی النظر میں روس اور امریکہ کا شام سے متعلق کسی فارمولے پر متفق ہونا ممکن نہیں لگتا تاہم سفارتکاری میں امید رکھنا ہی بنیادی اصول ہے۔ مذکورہ امید میں بھی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے مگر یقین سے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔