گول چکر
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کا فیصلہ ختم کرکے اسمبلی میں جانے اور وہاں کی تمام کارروائیوں میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ جب سے یہ خبر سنی ہے ، فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ عمران خان کو ’’دیر آئد درست آئد ‘‘کی مبارکباد دوں یا اس بات پر اظہارِ افسوس کروں کہ ہٹ دھرمی ، کہیں غیب سے امداد یا امپائر کی انگلی اٹھنے کی آس میں انہوں نے قوم کے ساڑھے تین سال ضائع کر دئیے۔ ان ضائع کردہ ساڑھے تین سال میں وہ ایک سال بھی شامل ہے جس میں ان کے بلا جواز دھرنوں کی وجہ سے سی پیک جیسے اہم ترین منصوبے میں ایک سال کی تاخیر ہوئی۔ اگر چینی صدر کا دورہ ملتوی نہ ہوا ہوتا اور سی پیک شروع ہونے میں ایک سال کی تاخیر نہ ہوئی ہوتی تو آج پاکستان کافی آگے جا چکا ہوتا۔ ان ساڑھے تین سال میں پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ بھی شامل ہے جس میں برادر ملک ترکی کے پاکستان دوست صدر طیب اردوان نے خطاب کیا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ عمران خان نے جو فیصلہ اب کیا ہے، وہ پچھلے مہینے صدر طیب اردوان کے پارلیمنٹ سے مشترکہ خطاب کے موقع پر کیوں نہیں کیا؟ دھرنوں اور احتجاجی سیاست میں شدید ناکامی کے بعد عمران خان کے پاس قومی اسمبلی میں واپس بیٹھ جانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا تھا۔ لوگ اس بات پر بھی اعتراض کرتے تھے کہ ایک طرف عمران خان قومی اسمبلی کو جعلی اسمبلی کہہ کر مانتے نہیں ، ان کی پارٹی کے ممبران اسمبلی اجلاس میں نہ جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں ، دوسری طرف عمران خان سمیت ان کی پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی سے تنخواہیں، الاؤنسز اور مراعات پوری کی پوری لے رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاست اگر اصولوں پر مبنی تھی تو اس دو عملی کا کیا جواز تھا؟ ان ساڑھے تین سال کے دوران عمران خان کی قومی اسمبلی میں اپنی حاضری صرف 6 فیصد رہی، جسے نرم سے نرم الفاظ میں بھی افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح لوگ یہ سوال بھی کرتے تھے کہ اگر 2013ء کے انتخابات درست نہیں تھے تو پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں حکومت کیوں بنائی ہوئی ہے؟ یہ قول اور فعل کے وہ تضادات تھے جن کے بارے میں قوم سوالات پوچھنے میں حق بجانب ہے۔ عمران خان کا تازہ ترین یو ٹرن پاکستان تحریک انصاف کے ایک اجلاس میں لیا گیا جس کے بعد عمران خان نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کسی ’’خاص وجہ‘‘ سے جا رہے ہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز توجیہہ ہے جوعذر گناہ بدتر از گناہ، کے زمرے میں شمار کی جا سکتی ہے ،کیونکہ پاکستانی قوم اتنی بے وقوف بھی نہیں ہے کہ وہ یہ نہ جانتی ہو کہ اس فیصلے کی اصل وجہ دھرنوں اور احتجاجی سیاست میں ناکامی کے بعد سپریم کورٹ سے بھی حتمی طور پر مایوسی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ انہیں احساس ہو گیا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے میں وہ ایک کمزور وکٹ پر کھڑے ہیں اور ان کی ’’ تلاشی‘‘ لینے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا، لہٰذا عمران خان کو ایمانداری کے ساتھ قوم کے سامنے اعتراف کرنا چاہئے تھا کہ احتجاجی سیاست سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے اور اب ان کے سامنے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں واپس چلے جائیں۔ عمران خان کے دھرنوں اور احتجاجوں کے بارے میں بار بار یہ لکھتا رہا ہوں کہ انہیں 2013ء کے الیکشن کو بھول کر اگلے الیکشن 2018 ء کی تیاری کرنی چاہئے اور اس کے لئے انہیں اسمبلیوں کی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لینے کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا میں مثالی کارکردگی دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اگلے الیکشن میں خیبر پختون خوا میں کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کے قابل ہو سکیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ عمران خان یو ٹرن لینے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ،جو وہ اکثر لیتے ہیں اور تقریباً ہر معاملے پر ہی لیتے ہیں، لیکن بعض دفعہ تو وہ کسی بات پر اتنے زیادہ یوٹرن لیتے ہیں کہ وہ یو ٹرن سے زیادہ گول چکر بن کر رہ جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں جانے یا نہ جانے کے معاملے میں بھی پچھلے ساڑھے تین سال میں انہوں نے اتنے یو ٹرن لئے ہیں کہ اب یہ بھی ایک گول چکر ہی بن چکا ہے۔ ویسے تو انہیں پارٹی بنائے ہوئے بیس سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے، لیکن ان کی سیاست میں تیزی پچھلے پانچ سال کے دوران آئی، لیکن پہلی مرتبہ وہ 2002ء کے الیکشن میں صرف ایک نشست جیتے تھے عمران خان کی سیاست ان پندرہ سال میں بھی بغیر کسی سمت اور بغیر کسی قابل عمل منشور کے ہی تھی،جبکہ اپنی ذاتی زندگی کی طرح اپنی سیاست میں بھی وہ بار بار یو ٹرن لینے کے عادی تھے، لیکن چونکہ پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ہوا کرتی تھی ،اس لئے ان کے یو ٹرن بھی بغیر کوئی توجہ حاصل کئے گذر جاتے تھے۔ 2011ء میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف نے بڑے جلسے کرکے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا شروع کی اور 2013 ء کے الیکشن میں پارٹی نے نہ صرف قومی اسمبلی میں تیس سے زائد سیٹیں جیت لیں، بلکہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت بھی بنا لی۔
پاکستان میں دوسرے شعبوں کی طرح سیاست میں بھی بھیڑ چال یا ہوا کا رخ دیکھ کر سیاست دان بھی ادھر ادھر ہوتے رہتے ہیں، اس لئے جن دنوں عمران خان بڑے بڑے جلسے کر رہے تھے تو دوسری پارٹیوں کے بہت سے ایسے سیاست دان جو بظاہر بڑا نام تھے، لیکن اپنی اپنی پارٹیوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر سیٹ نہیں تھے، پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونا شروع ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی آئی کی بس میں بہت سی نمایاں سواریاں بیٹھ گئیں۔ یہ لوگ چونکہ مختلف پارٹیوں سے اپنی اپنی نجی وجوہات کی بنا پر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، اس لئے اس پارٹی میں فالٹ لائینز نے جنم لیا اور اس میں مختلف گروپ در گروپ بن گئے جو اوپر سے نیچے، حتیٰ کہ یونین کونسل کی سطح تک آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہے۔ ان فالٹ لائینز کی وجہ سے تنظیمی طور پر پاکستان تحریک انصاف کافی کمزور ہو چکی ہے اور ہر گذرتے دن کے ساتھ اس کا اگلا الیکشن جیتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان کے یوٹرن اور بسا اوقات گول چکروں نے بھی سیاسی طور پر پارٹی کی عوامی مقبولیت کو کافی کم کر دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید جیسے نام نہاد سیاست دانوں کو اپنا دم چھلہ بنا کر بھی عمران خان نے اپنی پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب بھی وقت ہے، اپنی پارٹی کو گراس روٹ سطح پر منظم کرکے پاکستان تحریک انصاف کو اگلے الیکشن کی تیاری کرنی چاہئے اورساتھ ہی ساتھ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ اسی طرح خیبر پختون خوامیں اپنی حکومت کے باقی ماندہ وقت کو بہترین کارکردگی دکھانے میں استعمال کرنا چاہئے جن میں گڈ گورننس اور ترقیاتی کام خاص طور پر ترجیحاتی بنیادوں پر کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ عمران خان کو نواز شریف فوبیا سے نجات حاصل کر لینی چاہئے، کیونکہ نفسیاتی مرض کی حد تک بڑھے ہوئے اس فوبیا نے عمران خان کو بے پناہ سیاسی نقصان پہنچایا ہے۔
عمران خان کو چاہئے کہ نواز شریف کو دشمن سمجھنے کی بجائے ایک متحارب سیاست دان کے طور پر لیں ، ہر بات کی تان وزیر اعظم کے استعفےٰ پر توڑنے کی بجائے عمران خان کو میاں نواز شریف کا سیاسی مقابلہ کرنا چاہئے اور انہیں یہ بات بھی سمجھنا ہو گی کہ سیاسی مقابلہ بہتر سیاست کر کے ہی کیا جا سکتا ہے، بلاجواز کردار کشی کر کے سیاسی میدان میں فتح حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بات بے بات یوٹرن لینا عمران خان کی ایک بڑی کمزوری ہے، ہر انسان میں کوئی نہ کمزوری ہوتی ہے، لیکن چونکہ وہ خارزارِ سیاست میں ہیں، جہاں یو ٹرن لینا ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہونے کے مترادف ہوتا ہے، اس لئے انہیں اپنی اس عادت سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ انہیں چاہئے کہ اپنے مشیروں سے مشاورت کرکے تمام اہم مسائل پر اپنی ایک حتمی رائے قائم کریں اور پھر اسی پر قائم رہیں۔ اتنے یوٹرن کہ وہ گول چکر بن کر رہ جائیں، عمران خان کی سیاست کو وینٹی لیٹر پر لے جائیں گے۔ پاکستانی قوم کو چاہئے کہ وہ عمران خان کی اس غلطی کو نظر انداز کردے کہ انہوں نے ساڑھے تین سال اپنا اور قوم کا وقت ضائع کیا اور انہیں واپسی کی مبارکباد دیتے ہوئے اس بات کی توقع رکھے کہ پاکستان تحریک انصاف اسمبلیوں میں اپنا سیاسی اور آئینی کردار ادا کرے گی۔ نہ سڑکیں اور نہ ہی عدالت، پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہوگا، ویسے بھی مسندِ اقتدار پر انہیں کوئی غیبی مدد یا کسی امپائر کی انگلی نہیں، بلکہ پارلیمانی سیاست ہی پہنچا سکتی ہے۔ اگر عمران گول چکر کے گرد گھومنا بند کر دیں تو ایک سیدھی سڑک پر اپنا سیاسی سفر کافی آگے تک جاری رکھ سکتے ہیں
