حکومت سندھ کا اقلیتی بل کی متنازع شقوں پر نظر ثانی کا اعلان

حکومت سندھ کا اقلیتی بل کی متنازع شقوں پر نظر ثانی کا اعلان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ اسمبلی سے پاس کردہ تبدیلی مذہب بل کے خلاف دینی جماعتوں کے احتجاج اورتحریک کے پیش نظرپیپلزپارٹی کی قیادت کے حکم پر حکومت سندھ نے اقلیتی بل کی منتازعہ شقوں پرنظرثانی کا اعلان کردیا ، اقلیتی بل پرنظرثانی کا فیصلہ بلاول بھٹو اورسابق صدرآصف علی زرداری کی ملاقات میں کیا گیا،آصف زرداری نے جے یوآئی قائد مولانا فضل الرحمن سے ٹیلیفونک رابطے کے بعد بل پرنظرثانی کا فیصلہ کیا ۔ حکومت سندھ نے دینی جماعتوں کے دباو پرگھٹنے ٹیک دیے یا کوئی اورسیاسی مصلحت آڑے آگئی بہرحال حکومت سندھ نے دینی مدرسہ رجسٹریشن بل کے بعد پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کے حکم پرسندھ اسمبلی سے گذشتہ ماہ پاس کردہ اقلیتی بل میں تبدیلی مذہب سے متعلق متنازعہ شقوں پرنظرثانی کا اعلان کردیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے اس فیصلے سے جے یوآئی قائد مولانا فضل الرحمن کوبھی آگاہ کردیا ہے اورانہیں کہاہے کہ وہ دینی قیادت کواعتماد میں لیں اورپیپلزپارٹی کے خلاف تحریک نہ چلائیں بلکہ حکومت سندھ کے ساتھ بیٹھ کربل کی منتازعہ شقوں کودرست کرانے میں مدد کریں ۔ پارٹی کی اعلی قیادت کے حکم پرحکومت سندھ نے اسمبلی سے پاس کردہ منارٹی بل پر مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد اس کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سندھ اسمبلی میں مذہب کی زبردستی تبدیلی سے متعلق صو بائی اسمبلی کی جانب سے قانون سازی کرنے پر مذہبی جماعتیں صوبے بھر میں سرپااحتجاج تھیں اور ان کا مطالبہ تھا کہ شریعت کے منافی قانون واپس لیا جائے دیگر صورت وہ سندھ اسمبلی کا گھیراو جائے گا۔ ،پیپلزپارٹی کے اعلی قیادت نے معاملے کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو بل کا ازسر نو جائزہ لینے کی ہدایت کی ،اس سلسلہ میں سندھ حکومت نے قانونی وآئینی ماہرین سے مشاورت کے بعد بل کا ازسر نو جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔دوسری جانب پارلیمانی امور کے صو بائی وزیر نثار احمد کھوڑوکا کہنا ہے کہ بل میں موجود کسی بھی متنازعہ شق کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے حکومت سندھ تیارہے ، قرآن شریف کی سورہ بقرمیں زبردستی مذہب تبدیل نہیں کیا جا سکتا اس لئے قران اور شریعت کے منافی قانون بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی نے صرف 18سال سے کم عمر والوں کی شادی کی ممانعت کی ہے ۔مذہب کی تبدیلی کیلئے کسی بھی عمر کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔سندھ اسمبلی کی جانب سے مذہب کی زبردستی تبدیلی سے متعلق پاس کئے گئے بل کے مطابق زبردستی مذہب تبدیل اور شادی کرنے والوں کو سات اور سہولت کار کو تین سے پانچ سال تک قیدکی سزاکا تعین کیا گیا تھا ،18 برس سے کم عمر لڑکا اور لڑکی کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی ،نئی قانون سازی کے مطابق فوجداری قانون کے تحت زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کرنا جرم تصورقراردیا گیا تھا ۔مذہب کی جبری تبدیلی سے سندھ اسمبلی سے بل کی منظوری کوعلماء کرام اورمذہبی اسکالرزاوردینی جماعتوں نے اسلام اورآئین کے منافی قراردیا تھا۔ علماء کرام کا موقف ہے کہ اسلام اپنی خوشی سے قبول کیا جاتا ہے جس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔سندھ حکومت نے صرف لبرل اور سیکولر بننے کیلئے یہ بل منظور کیا۔علمائے کرام ، معروف اسکالرز اور رتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی کا بل بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، ہر آزاد شہری کو آزادزندگی گزارنے کا حق حاصل ہے سندھ میں غیر مسلموں کی قبولیت اسلام پر پابندی سے متعلق بل کی مذمت کرتے ہوئے دینی جماعتوں نے گورنر سندھ سے اس پر دستخط نہ کرنے کامطالبہ کیا ۔ جے یوآئی کے قائد مولانا فضل الرحمن کے مطابق سابق صدرآصف علی زرداری نے مجھ سے رابطہ کیا اور ان کی ہدایت پر سندھ کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے بھی مجھ سے رابطہ کیاتھااور انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ علماء بیٹھ کر اس بل میں جو غیر اسلامی اور قرآن وسنت کے خلاف شقیں ہیں ان پر حکومت کی رہنمائی کریں ۔